مقامی مارکیٹ ذرائع کے مطابق استعمال شدہ کاروں پر درآمدی ڈیوٹیز بڑھنےسے کاروں کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیاہے جس کے بعد گاڑیوں کی فروخت میں نمایاں کمی سے کار ڈیلرز بھی پریشانی کا شکار ہیں۔ذرائع کے مطابق حکومت کی جانب سے غیر ملکی کاروں کی درآمد پر ڈیوٹیز میں اضافے کے بعد سے خریدار استعمال شدہ کاروں کی قیمتیں سن کر ہی پریشان ہیں،خریداروں کا کہنا ہےکہ جو 6 ماہ پہلےگاڑی کا ریٹ تھا اب اس سے بڑھ گیا ہے، گاڑی کی قیمت میں 2 سے 3 لاکھ روپے اضافہ ہوا ہے۔
استعمال شدہ درآمدی کاروں کے شورومز پر کبھی خریداروں کا رش رہتا تھا لیکن اب ویرانی کے ڈیرے ہیں جب کہ شو رومز مالکان کا کہنا ہے کہ وہ صبح سے شام تک فارغ بیٹھ کر گھر چلے جاتے ہیں، حالات بہت خراب ہو گئے ہیں، دن بہ دن قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے کام نہ ہونے کے برابر ہے۔استمال شدہ درآمدی کاروں کی خریداری کے خواہش مند افراد اور ان کی فروخت سے منسلک شوروم مالکان کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ درآمدی ڈیوٹیز میں کمی لاکر شہریوں کو کم قیمت میں معیاری گاڑیاں خریدنے کے موقع فراہم کیا جائے۔
قیمتوں میں اضافے کا رجحان فقط درآمدی گاڑیوں پر ہی نہیں بلکہ مقامی طور پر تیار کردہ نئی اور پرانی گاڑیوں کی قیمتوں مین بھی ایک سے 2 لاکھ روپے کا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اس حوالے سے مارکیٹ ذرائع کا کہنا ہے کہ لگتا ہے حکومت مقامی کار صنعت مالکان کے سامنے مجبور ہے جو جب چاہین اپنی کاروں کی قیمتوں میں اضافہ کردیتے ہیں جبکہ ان کی کار کا معیار اور سہولیات میں مسلسل کمی آرہی ہے ایسا کوئی پیمانہ ہی مقرر نہیں کیا گیا جو مقامی طور پر تیار ہونے والی گاڑیوں کے معیار اور اور ان کی قیمتوں کا تعین کرسکے، یہی وجہ ہے کہ درآمدی گاڑیوں کی مانگ میں اضافہ تو ہوا تو ان کی قیمتیں بھی بڑھ گئیں لیکن اب خریدار کم ہوتے جارہے ہیں اور قیمتیں مسلسل بڑھتی جارہی ہیں۔
مسئلہ کہاں ہے۔۔۔؟؟
چونکہ پاکستان میں گاڑیاں اسمبل کی جاتی ہیں اس لیے ایک بہت بڑا مسئلہ مقامی سطح پر تیاری کا ہے۔ گذشتہ سال گاڑیاں بنانے والے مقامی صنعت کے تقریباً 60 نمائندوں نے کومپٹیشن کمیشن یعنی مسابقتی کمیشن آف پاکستان کو یہی بات بتائی کہ مقامی طور پر اسمبل ہونے والی گاڑی کے 60 سے 70 فیصد تک پرزے باہر سے درآمد کیے جاتے ہیں۔
اگرچہ پاکستان میں مزدوری سستی ہے لیکن گاڑی مہنگی ہونے میں مقامی سطح پر تیاری کا بہت بڑا کردار ہے خاص طور پر ایسے ماحول میں جب ڈالر کے مقابلے پر روپیہ غیر مستحکم ہو بلکہ گر رہا ہو،مگر چونکہ ریگولٹری نظام نہ ہونے کے برابر ہے اس لیے مسابقتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں یہ بات لکھی کہ ‘مقامی گاڑیاں بنانے والے گاڑیوں کی قیمتوں میں آسانی سے اضافہ کر سکتے ہیں۔ بغیر اس ڈر کے کہ مارکیٹ میں ان کے شیئر پر اس کے نتیجے میں کوئی اثر پڑے گا کیونکہ مارکیٹ میں مناسب مسابقت نہیں ہے’۔
طلب و رسد میں عدم توازن
گاڑیوں کی طلب اور رسد کا نظام پہلے ہی متوازن نہیں اس پر کار ڈیلر گاڑیوں کی فروخت پر ’پریمیم‘ کے پیسے جسے عام زبان میں ’آن منی‘ کہا جاتا ہے اس کی طلب بھی کرتے ہیں۔ یہ رقم گاڑی کی اصل قیمت کہ علاوہ ڈیلر طلب کرتا ہے تاکہ گاڑی معینہ مدت سے پہلے یا اسی وقت خریدار کو دی جا سکے۔ اس لین دین کی کوئی رسید نہیں ہوتی اس لیے کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا۔ اور کار ڈیلر ایک گاڑی کے پیچھے دس ہزار روپے سے لے کر دس لاکھ روپے تک وصول کرسکتے ہیں۔ یہ سب گاڑی کی مارکیٹ میں طلب پر منحصر ہے۔
یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ بہت سارے سرمایہ کار طلب اور رسد کی اس خلیج کو پاٹنے کے لیے سرمایہ لگاتے ہیں جس کا نتیجہ انہیں جلد منافع کی صورت میں ملتا ہے۔ تو وہ ایسی گاڑیاں جن کی مانگ زیادہ ہوتی ہے انہیں پہلے سے خرید کر شوروم پر کھڑا کر دیتے ہیں اور پریمیم کے پیسوں سے اس سرمایہ کاری پر گاڑی کی قیمت کے علاوہ منافع کماتے ہیں۔
ایک اور وجہ جو گاڑیوں کی طلب اور رسد کے نظام کو غیر متوازی کرتی ہے وہ ایسے خریداروں کی جانب سے گاڑیاں خریدنا ہے جن کے پاس زیادہ پیسہ ہے اور وہ بروقت گاڑی خرید کر اسے مزید مہنگا کرکے بیچتے ہیں۔ اس قسم کے کام میں گاڑی بیچنے والا ایک لاکھ سے دو لاکھ روپے تک باآسانی کما سکتا ہے اور اس سے زیادہ بھی کمانا ممکن ہے۔ اس کے نتیجے میں گاڑی کی حقیقی طور پر طلب رکھنے والے کے لیے گاڑی دستیاب نہیں ہوتی جبکہ ایک ایسا شخص جسے گاڑی کی شاید فوری ضرورت نہ ہو گاڑی خرید کر اسے اس سے محروم کر دیتا ہے اور شاید اس کے لیے مہنگا بھی کر سکتا ہے
پاکستان کے بڑے کارڈیلرز کے مطابق ’پاکستان میں گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی واقع ہونا مستقبل قریب میں ممکن نہیں، جب تک گاڑیوں کو مکمل طور پر مقامی طور پر تیار کرنے کی جانب اقدامات نہیں کیے جاتے۔ جب تک گاڑی پر بیرونی عوامل کو کم نہیں کیا جاتا جیسا کہ ڈالر ہے‘۔
موجودہ گاڑیاں بنانے والوں کی طلب اور رسد میں موجود توازن کو مزید سرمایہ کاری اور نئی کمپنیوں کی مدد سے درست کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے حکومت کو معاشی حالات کو بہتر کرنا پڑے گا اور روپے کو ڈالر کے مقابلے میں مستحکم کرنا پڑے گا تاکہ گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہو،گاڑیوں کی صنعت میں کارفرما غیرقانونی سرگرمیوں پر حکومت کو سنجیدگی کے ساتھ کریک ڈاؤن کرنا ہوگا جیسا کہ آن منی یا کار ڈیلروں کی جانب سے غیرضروری منافع کمانے کے مختلف ہتھکنڈے ہیں۔ اس کے ساتھ ٹیکس کے حوالے سے چھوٹ پر بھی غور کرنا ہو گا۔