قیامِ امام حسینؑ ۔۔۔۔ گذشتہ سے پیوستہ
امام حسینؑ کی تحریک میں فریضے کی انجام دہی اور مقصد و غایت کو کیسے یکجا کیا جائے؟
سوال: بعض محققین کہتے ہیں کہ فریضے کی ادائیگی میں ہدف و غایت کو نہیں دیکھا جاتایعنی انسان پر لازم ہے کہ ہر صورت میں اپنا فرض ادا کرے، خواہ مقصد حاصل ہو یا نہ ہولیکن آپ نے اِن دونوں باتوں کو یکجا قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ آپ اِن دونوں کو یکجا کرنے کی وضاحت کس طرح کریں گے؟
اِن دونوں میں کوئی ٹکراؤ نہیں، درحقیقت یہ ایک ہی چیز ہےامام حسینؑ کا مقصد تمام شعبوں میں حق کا احیا اور باطل کی نابودی تھا اس ہدف کے حصول کے لیے ضروری تھا کہ امامؑ ایک راستہ اپنائیں امامؑ نے وہ راستہ تلاش کیا اور اس کا آغاز حکومت کے خلاف ردِعمل اور اس سے ناراضگی کے اظہار سے کیا۔
اوّلین مرحلے ہی میں جب امامؑ نے یزید کی بیعت قبول نہ کی، تواُن کے مقصد کا ایک حصہ مکمل ہوااس مرحلے میں مقصد کے حصول کا راستہ حکومت کے خلاف ردِعمل اور اس کی مخالفت تھا۔
میں پیغمبرؐ کا نواسہ اِس حکومت سے راضی نہیں، اِس کے افعال کو پسند نہیں کرتابس یہ حکومت ایک اسلامی حکومت نہیں ہے۔
اِس عمل سے امامؑ نے امربالمعروف و نہی عن المنکرکا فریضہ بھی ادا کیا اور اپنے مقصد کو بھی حاصل کیااگر بالفرض اِس کے بعد امام حسینؑ کوئی قدم نہ اٹھاپاتے، تب بھی اپنے مقصد تک پہنچ چکے تھےآپؑ کے مکہ جانے سے دوسرے مرحلے کا آغاز ہوا اگر اِس کے بعدکےمراحل بھی واقع نہ ہوتے، تب بھی امامؑ نے اپنا فریضہ انجام دے دیا تھا اورکامیابی حاصل کرلی تھی اِس کے بعد بھی اگرامامؑ جاتےاورحکومت کی تشکیل میں کامیاب ہوجاتے، تواپنا مقصد پالیتے اوراگرحکومت حاصل نہ کرپاتے اوراِس راہ میں جامِ شہادت نوش کرلیتے، تب بھی اپنے مقصدکو حاصل کرلیتے کیونکہ آپؑ کامقصد امربالمعروف اور سیرتِ پیغمبرؐ کا احیا تھا۔
حسینی تحریک کے اسباب اور مقاصد
تاریخ کے مختلف ادوارمیں رونماہونے والے بڑے بڑے انقلابات کی جمہوری یا استبدادی ماہیت اِن انقلابات کے رہنماؤں کے افکار و نظریات کی عکاس ہوتی ہے بلند پایہ اور مقدس تحریکوں کے اہداف ومقاصد اِنہیں غیر مقدس اور استبدادی تحریکوں سےجدا کرتے ہیں باالفاظِ دیگر رہنماؤں کے افکار و نظریات اور تحریکوں کے اغراض و مقاصد ہی کے ذریعے ان کے درمیان فرق قائم کیا جاتا ہے۔
آزادی بخش انقلابات، بد عنوان اور گھٹن زدہ معاشروں میں نا انصافی اور ظلم و ستم کے ردِ عمل میں رونما ہوتے ہیں1789ء میں رونما ہونے والا انقلابِ فرانس مزدوروں اور کسانوں پر طبقہ اشرافیہ کے المناک مظالم کا نتیجہ تھایورپ کے علمی انقلاب (رنسانس، جو سولہویں صدی عیسوی میں رونما ہوا) کا ایک بڑا سبب کلیسا کی طرف سے دانشوروں پر مسلط کردہ دباؤ اور گھٹن کا ماحول تھاغلامی اور نسلی امتیازات کے خلاف رونما ہونے والے انقلابات کی وجہ بھی آقاؤں اور نسل پرست حکمرانوں کی جانب سے روا رکھی جانے والی حق تلفی اور سخت گیری میں تلاش کی جانی چاہیےآزادی بخش تحریکوں کا اصل اوربنیادی مقصد عوام کو سیاسی اور اقتصادی جبر سے نجات دلانا اور انفرادی اوراجتماعی آزادیوں کا حصول تھا۔
دینی تحریکوں کا امتیاز
تبدیلی اور انقلاب وجود میں لانے کے لیے انبیا ؑ اور اولیائے دین کے محرکات اور مقاصد دوسری تحریکوں سے مختلف ہوتے ہیں انبیا ؑ نے انسانوں کو صرف ظلم وستم سے نجات دلانے کے لیے قیام اور جد و جہد نہیں کی تھی، بلکہ وہ دوسرے مقدس مقاصد کے حصول کے لیے بھی سرگرمِ عمل رہے تھے، جن میں سے چند درجِ ذیل ہیں:
(۱) انسانوں کو بیہودہ عقائد، گناہ زدہ زندگی، اخلاقی، اقتصادی اور معاشرتی خرابیوں سے نجات دلانااس فریضے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے قرآنِ کریم فرماتا ہے:
وَیَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْهِمْ
اور (رسول) اِن پر سے احکام کے سنگین بوجھ اور قید و بند کواٹھا دیتا ہے۔(۱)
(۲) باطل ادیان کی یلغار سے نجات دلانا۔
(۳) خداکی بندگی کی طرف بلانا۔
(۴) لوگوں پر خدا کی حاکمیت کا قیام۔
انبیاؑ کی تحریکیں اخلاقی اقدار اور الٰہی قوانین کے رواج کے لیے ہوتی ہیں، ذاتی اغراض و مقاصد کا اِن میں کوئی کردار اور حصہ نہیں ہوتاایسا معاشرہ جس میں عدالت اور آزادی کا چلن ہو، جہاں قانون کی نظر میں سب مساوی ہوں اور جہاں برائی اور بدعنوانیوں کوجڑ سے ختم کر دیا جائے، وہاں حکومتِ الٰہی کے قیام کے لیے حالات سازگار ہوتے ہیں اس تمہید کی روشنی میں اب ہم عاشورا کی تحریک کے فلسفے اور اِس کے مختلف محرکات کے بارے میں گفتگو کر سکتے ہیں۔
امام حسینؑ نے اپنی تمام توانائیوں کے ساتھ برائیوں کے خلاف اقدام اٹھایا، تاکہ الٰہی اقدار اور فضیلتوں کی حکمرانی قائم کی جا سکےاس لحاظ سے عاشورا کی تحریک اور آزادی کی دوسری تحریکوں کے درمیان ہدف اور مقصد کا فرق نمایاں ہےجولوگ اس تحریک کو دوسری بشری تحریکوں ہی میں سے ایک تحریک سمجھتے ہیں، اُنہوں نے دراصل اس کے اہداف و مقاصد کو نہیں سمجھاعالی مرتبہ مسلم محققین نے بھی اس کے اسرار کے کسی خاص گوشے ہی سے پردہ اٹھایا ہے، لیکن اس کی بہت سی حکمتیں تا ہنور پوشیدہ ہیںکیا اِس تحریک کی وجہ(امام حسین ؑ کی جانب سے) یزید کی مخالفت اور اُس کی بیعت سے روگردانی تھی؟ کیا تحریک کا محرک کوفیوں کی دعوت تھا؟ یا اس کاسبب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا قیام تھا؟ یا ان مذکورہ عوامل کے علاوہ کوئی اور عامل انقلابِ کربلا کا موجب تھا؟
تحریف کرنے والے سادہ لوح افراد کہتے ہیں کہ امام حسین ؑ نے اپنے نانا کی گناہگار امت کی شفاعت کے لیے یہ قیام کیایہ طرزِ فکر عیسائیوں کے اس عقیدے کی مانند ہے جو وہ حضرت عیسیٰ کے بارے میں رکھتے ہیں۔
بعض دوسرے لوگ یزیدی حکومت کی نابودی، قبائلی رنجش اور بنی امیہ سے انتقام لینے کوامام حسین ؑ کی تحریک کا بنیادی مقصد قراردیتے ہیںکچھ مقدس اور محدث حضرات بھی امام ؑ کے قیام کو ایک خاص غیبی دستورِ عمل(program) کی پیروی قرار دیتے ہیںجبکہ اگر ایسا ہو تو یہ قیام دوسروں کے لیے درسِ عمل اور قابلِ پیروی نہیں رہتا۔
ایک اہلِ سنت عالم ” عبداﷲ علائلی“ لکھتے ہیں:
” مجھے اِن تاریخ نگاروں پر تعجب ہے جو بے انصافی کرتے ہوئے امام حسین ؑ پر بغاوت کی تہمت لگاتے ہیں اور تلخ لہجے میں ان کا ذکر کرتے ہیںمیں ان جوانمردوں کو داد دیتا ہوں جوبد عنوان حکومتوں کے خلاف جہاد کرتے ہیں، تاکہ ان حالات کو بدل کر مناسب اور مطلوب حالات وجود میں لائے جاسکیں اور ان لوگوں کے اخلاص، شرافت اور عزمِ صمیم سے معمور قلوب کو آفرین کہتا ہوںان جوانمردوں کے سالار حسین ابن علی ؑ ہیں، حسین ؑ جو حق کے مدافع اور نگہبان تھے، آپ ؑ نے اس مقصد کے لیے اپنے آپ
کو آگ میں جھونک دیا وہ بخوبی جانتے تھے کہ دشمن نے یہ آگ آپؑ کی دعوت اور تحریک کو ختم کرنے کے لیے بھڑکائی ہے لیکن امام ؑ کی آوازِ حق نے اس آگ کو اور شعلہ ور کر دیا، وہ مزید بھڑک اٹھی اور اس کے شعلوں نے ان لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے کر نابود کر دیا جنہوں نے ناحق اس آگ کو بھڑکایا تھا۔“(۱)
مشہور مصری مصنف ” عباس محمود عقاد“ لکھتا ہے:
” حسینؑ الٰہی اور روحانی شخصیت کے مالک تھےان کا بپاکردہ انقلاب ان کی بلند مرتبہ، باصفا اور گہری الٰہی روح کا عکاس ہےاس کے برعکس یزید صرف اِس دنیا کی مستی، عیش وعشرت اور لذتوں پر یقین رکھتا تھا اور اس کے تمام اعمال پستی میں لے جانے والے تھے۔“
جاری ہے۔۔۔۔