تحریر: ام کلثوم نقوی
آج کے اس علمی دور میں جہاں ہمارے ہاتھ میں دنیا بھر کا عِلم موجود ہے لیکن پھر بھی مزید کی جستجو قائم ہے۔ ہمارے مسائل ہماری سوچ کے مطابق نئے سہی لیکن ان کا حل دائمی نسخہ کائنات میں موجود ہے۔ یہ میرا یا آپ کا کلام نہیں بلکہ خدا کا دعوی ہے۔ مگر کیا ہم اس نسخہ کیمیاء سے مستفید ہونے کی استطاعت رکھتے ہیں۔۔؟؟ یہ بہرحال ایک سوال ہے۔ کسی عالم نے کہا تھا کہ قرآن سے اگر کوئی ہدایت لینا چاہے تو وہ اسے ہدایت فرماتا ہے لیکن اگر کوئی اسی قرآن سے گمراہی لینا چاہے تو قرآن اسے گمراہی کی طرف بھی لے جا سکتا ہے۔ خدا نے بھی ایسے گمراہوں کے سینے کو مقفل رکھنے کی وعید سنائی ہے جو گمراہی پر قائم رہنا چاہتے ہیں۔ اب اگر ہم یہ دیکھیں کہ ارتقائے اسلام کہاں سے وجود میں آیا تو بہت دور جانے کی ضرورت نہیں ۔
دنیا میں بہت سے واقعات کو تاریخ دنیا کے سب سے بڑے اور ناقابل فراموش واقعات کا نام دیا جاتا ہے۔ آدم و حوا کا زمین پر آنا آغاز انسانی تاریخ ہے۔ لیکن نوح علیہ اسلام کو دنیا کو دوبارہ سجانے کا سہرا جاتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فتح مکہ اور عام معافی کا اعلان اسلام کی حقیقی بنیاد قرار دیا جاتا ہے جس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ لیکن ان سب واقعات سے بڑھ کر کیا کوئی واقعہ ایسا تاریخ کے دامن میں ہے جس کو ان سب واقعات پر سبقت حاصل ہو۔۔؟ تو ہمیں اپنی نظر کو وسعت دینی ہو گی۔اس کے لیے تاریخ کے زیادہ ورق گردانی کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ تاریخ اسلام کے افق پر ایک ایسی ہستی ہے جو انبیا و آئمہ و اولیاء کے جُھرمٹ میں کسی روشن ستارے کی طرح سے جگمگا رہی ہے اور تا قیامت اپنے وجود کے نور سے راہ حق کے متلاشیوں کو راستہ دکھاتی رہے گی۔ تاریخ انسانیت میں اگر کسی واقعے کی گونج اب تک سنائی دیتی ہے تو وہ 61 ہجری میں ہونے والے ایک ایسا واقعہ ہے جس میں لاکھوں کی فوج کے مقابل سرور کائنات کے اہل بیت علیہ سلام علیہم کے چند افراد کا ڈٹ جانا تھا۔
"ھل من ناصر ینصرنا” کی صدا قیامت تک کے مسلمانوں کو مظلوموں کی امداد کی دعوت دیتی رہے گی۔ کچھ لوگ یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ امام حسین علیہ اسلام کو قیام کرنا چاہیے تھا۔ لیکن انہیں انے اہل و عیال کے ساتھ یزید کے ساتھ جنگ پر آمادہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ایسا کر کے انہوں نے فوج یزید کو اپنی شہادت پر نعوذ باللہ اُکسایا۔ لیکن شاید وہ نہیں جانتے کہ واقعہ کربلا امر ربی ہے۔ جس کی بشارت امام حسین علیہ اسلام کی ولادت پر ہی جبرائیل امین نے حضور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا دی تھی۔ اور شہادت امام حسین علیہ اسلام اور ان کے اہل بیت علیہم السلام کا قیدی بن کر شام اور کوفہ جانا مشیت الہی تھی۔
اس ایک واقعہ نے جہاں حق و باطل کی تفریق کو اجاگر کیا وہیں اقلیت کے باوجود اکثریت سے خائف ہونے کی بھی تردید کی ہے۔ واقعہ کربلا میں معاشرت کے ہر پہلو کا سبق پوشیدہ ہے لیکن یہ ہم پر ہے کہ ہم اس واقعے میں سے کیا سبق لیتے ہیں ۔ کچھ لوگوں کے لیے واقعہ کربلا صرف دو شہزادوں کی جنگ ہے، کچھ اسے حق و باطل کا غیر معمولی معرکہ قرار دیتے ہیں ۔ لیکن کیا کربلا کی اصل روح کا ہمیں ادراک بھی ہے۔۔؟ کربلا میں ہونے والا ظلم ایک سانحہ ، واقعہ ہے یا محض ایک داستان ہے۔۔؟؟ یہ سب ہماری سوچ کے دائروں پو منحصر ہے۔ اسلام کربلا سے پہلے بھی تھا لیکن اس کی تجدید کے لیے امام حسین علیہ اسلام اور ان کے اہلِ بیت علیہم السلام کی قربانی مشیتِ الہی ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے حجت الہی ، امام زمانہ علیہ سلام کا ظہور برحق ہے تا کہ کائنات کے اختتام سے پہلے اسلام کو اس کی اصل صورت میں واپس لایا جائے ۔
علامہ سید امداد حسین کاظمی سورہ فجر کی اس آیت "والفجر ولیال عشر” قسم ہے وقت فجر اور دس راتوں کی‘ کی تفسیر میں فخر الدین رازی اور کتاب سواطع الابھام‘ تفسیر التنزیل سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس سے محرم کا پہلا عشرہ مراد ہے اور اس میں اس دن کی بزرگی پر تشبیہ ہے کیونکہ اس میں یوم عاشورا ہے۔
امام حسین علیہ السلام کی قربانی سورہ صافات کی آیت 107کے مطابق ’’ذبحِ عظیم‘‘ ہے یعنی عظیم قربانی اور اس قربانی کی یاد قائم رکھنے کا ہی نام ’’عزاداری‘‘ ہے۔ سورہ دُخان کی آیت 29 میں ارشاد ہوا ’’فما بکت علیہم السماء والارض پس (کچھ لوگ ایسے تھے) جن پر نہ تو آسمان رویا نہ زمین۔‘‘ اس آیت کی تفسیر میں علامہ مرحوم سید امداد حسین کاظمی تحریر فرماتے ہیں کہ تفسیر مجمع البیان میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آسمان حضرت یحیٰ بن زکریا علیہما السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد چالیس دن تک رویا ہے اور ان دونوں کے سوا کسی پر نہیں رویا۔ کسی نے کہا! یابن رسول اللہ ﷺ اس کے رونے کی علامت کیا تھی؟ (یعنی کیسے رویا؟) فرمایا: طلوع و غروب کے بعد کی سرخی (خون آلود ہو جاتی اور) مزید بڑھ جاتی تھی۔ ( اور شہادت والے دن جو بھی پتھر اُٹھایا جاتا اس کے نیچے خون دکھائی دیتا، یہ زمین کا رونا تھا)۔
جو لوگ امام حسین علیہ سلام کے فضائل اور واقعہ کربلا کی دلیل قرآن سے مانگتے ہیں وہ شاید سورہ احقاف کی 15ویں آیت سے نا آشنا ہیں ۔ امام جعفر صادق علیہ اسلام کے قول کے مطابق یہ آیہ امام حسینؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ اس میں آیا ہے کہ جب امام حسینؑ حضرت فاطمہ(س) کے شکم مبارک میں تھے تو اس وقت پیغمبر اکرمؐ نے اپنی امت کے ہاتھوں آپ کے اس بیٹے کی شہادت کی خبر سنائی،اسی طرح امام حسینؑ کی حمل اور دودھ دینے کی مدت تیس مہینے تھی جس کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے
وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا حَتَّى إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ
اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے اس کی ماں نے زحمت کے ساتھ اسے پیٹ میں رکھا اور زحمت کے ساتھ اسے جنم دیا اور اس کا حمل اور دودھ چھڑانا تیس مہینوں میں ہوا۔ یہاں تک کہ جب وہ اپنی پوری طاقت کو پہنچا (جوان ہوا) اور پورے چالیس سال کا ہوگیا تو اس نے کہا اے میرے پروردگار! تو مجھے توفیق عطا فرما کہ میں تیرے اس احسان کاشکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے اور یہ کہ میں ایسا نیک عمل کروں جسے تو پسند کرتا ہے اور میرے لئے میری اولاد میں بھی صالحیت پیدا فرما میں تیری بارگاہ میں توبہ (رجوع) کرتا ہوں اور میں مسلمانوں(فرمانبرداروں) میں سے ہوں۔
صرف یہی نہیں مزید جو آیات کربلا کو بیان کر رہی ہیں اُن میں سے سورہ بقرہ کی آیات 84، 85، 86ہیں۔
وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُونَ أَنفُسَكُم مِّن دِيَارِكُمْ ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنتُمْ تَشْهَدُونَ ( 84 ) بقرہ – الآية 84
اور جب ہم نے تم سے عہد لیا کہ آپس میں کشت وخون نہ کرنا اور اپنے کو ان کے وطن سے نہ نکالنا تو تم نے اقرار کر لیا، اور تم (اس بات کے) گواہ ہو
ثُمَّ أَنتُمْ هَٰؤُلَاءِ تَقْتُلُونَ أَنفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِّنكُم مِّن دِيَارِهِمْ تَظَاهَرُونَ عَلَيْهِم بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِن يَأْتُوكُمْ أُسَارَىٰ تُفَادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَاءُ مَن يَفْعَلُ ذَٰلِكَ مِنكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَىٰ أَشَدِّ الْعَذَابِ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ( 85 ) بقرہ – الآية 85
پھر تم وہی ہو کہ اپنوں کو قتل بھی کر دیتے ہو اور اپنے میں سے بعض لوگوں پر گناہ اور ظلم سے چڑھائی کرکے انہیں وطن سے نکال بھی دیتے ہو، اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہو کر آئیں تو بدلہ دے کر ان کو چھڑا بھی لیتے ہو، حالانکہ ان کا نکال دینا ہی تم کو حرام تھا۔ (یہ) کیا (بات ہے کہ) تم کتابِ (خدا) کے بعض احکام کو تو مانتے ہو اور بعض سے انکار کئے دیتے ہو، تو جو تم میں سے ایسی حرکت کریں، ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ دنیا کی زندگی میں تو رسوائی ہو اور قیامت کے دن سخت سے سخت عذاب میں ڈال دیئے جائیں اور جو کام تم کرتے ہو، خدا ان سے غافل نہیں
أُولَٰئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بِالْآخِرَةِ فَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ ( 86 ) بقرہ – الآية 86
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی خریدی۔ سو نہ تو ان سے عذاب ہی ہلکا کیا جائے گا اور نہ ان کو (اور طرح کی) مدد ملے گی
علامہ سید امداد حسین کاظمی اپنے ترجمہ و تفسیر القرآن المبین ص 14 میں اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں کہ : و اذ اخذنا میثاقکم ۔۔۔ سے وما اللّٰہ بغافل عما تعملون تک نہایت اہم مضمون بیان کر رہی ہے۔ اس میں چند اُمور غور طلب ہیں جن کی تطبیق کربلا سے ہوتی ہے:
۱۔ اس سے قبل کی آیت میں تخاطب بنی اسرائیل سے ہے جبکہ اس آیت میں تخاطب حاضرین سے ہے یعنی مسلمانوں سے تخاطب سے پہلے بنی اسرائیل کو مخاطب کر کے انہیں وہ عہد یاد دہا گیا ہے جو بنی اسرائیل سے لیا گیا تھا جس کی انہوں نے خلاف ورزی کی تھی۔
2۔دوسری آیت میں مسلمانوں سے لیا گیا عہد یاد دلایا گیا ہے۔ مسلمانوں سے جو عہد لیا گیا تھا وہ کسی کا خون نہ بہانا تھا، یعنی کچھ مقدس ہستیاں ایسی تھیں، کچھ ایسے مقدس وجود تھے جن کے بارے میں عہد لیا گیا تھا کہ خبردار ان کا خون نہ بہانا (اس لئے کہ لحمک لحمی، جسمک جسمی، دمک دمی کے تحت ان ہستیوں کا خون بہانا خود محمد مصطفی ﷺ کا خون بہانا تھا)۔
3۔ ان وجودوں کا ملک سے باہر نکالنا بھی منع اور حرام قرار دیا گیا تھا۔
4۔ ثم اقررتم۔ پھر تم نے اقرار بھی کیا کہ نہ تو ہم ان وجودوں کو ملک سے باہر نکالیں گے اور نہ ان کا خون بہائیں گے۔و انتم تشہدون (حالانکہ تم مشاہدہ بھی کر رہے ہو گے)۔
ان تمام نکات اور اشارات کے باوجود واقعہ کربلا پر صدیوں سے بحث ہو رہی ہے۔ اورمحرم کے آغاز سے ہی شعیہ سنی بحث شروع ہو جاتی ہے۔ سیاہ لباس کی بہار ہو جاتی ہے، ماتم و نوحوں کی صدائیں فضا میں گونجنے لگتی ہیں۔ جلوس و تعزیے گلی گلی دکھائی دیتے ہیں ۔ لیکن دوسری طرف اس سیاہ لباس کو محض خود نمائی اور پروموشن کہنے والے کھل کو سامنے آتے ہیں۔ اور اس سیاہ لباس والوں کے بارے میں ایسی ایسی منطق سننے میں آتی ہے جن کا حقیقت سے شاید ہی کوئی تعلق ہو۔ لیکن بہرحال یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے۔ اور نہ ہی یہ اختلافات دو دن میں حل ہونگے۔ صدیوں سے چلنے والے ان مناظروں نے صدیوں تک چلنا ہے کیونکہ ہر مسلمان کو اسلام میں پورا داخل ہونا تھا لیکن یہاں ہر کسی کے پاس اپنے حصے کا اسلام پہنچا ہے اور وہ اسی پر اکتفا کر کے بیٹھ چکاہے۔ کیا واقعہ کربلا صرف اسی بحث کے لیے وجود میں آیا؟ بطور مسلمان ہم نے واقعہ کربلا سے وہی سیکھا جو اس کا اصل مقصد تھا یا ہم نے یہاں بھی باقی معاملات کی طرح ڈنڈی ماری؟
امام حسین علیہ اسلام نے اہل کوفہ کے سینکڑوں خطوط کے جواب میں اپنے بھائی مسلم بن عقیل کو بحیثیت اپنا نمائندہ کوفہ بھیجا تاکہ ان لوگوں پر حجت تمام کی جائے اور یزید کے خلاف ان سے بیعت کی جائے۔ اور ذی الحج میں جب امام حسین علیہ السلام کوححج کے دوران یہ خبریں موصول ہوئی کہ خدا کے گھر میں ان کے خون ناحق بہانے کی کریہہ سازش کی جا چکی ہے تو امام حسین علیہ اسلام نے جج کو عمرہ میں تبدیل کیا اور کربلا کا رخ کیا۔ امام حسین علیہ اسلام ہر مقام پر حجت تمام کرتے جا رہے کیونکہ امام جانتے تھے کہ قیامت تک ان کی اس عظیم قربانی پر گریہ کرنے والوں کے ساتھ ساتھ ان کی ہر تدبیر پر اشکال پیدا کرنے والے بھی موجود ہوں۔ امام نے حاکم مدینہ ولید بن عقبہ سے مدینہ میں رہنے کی درخواست کی۔ لیکن اس نے امام علیہ اسلام کو یزید کی بیعت پر مجبور کیا ۔ امام المتقین کو جب یہ اندازہ ہو گیا کہ مدینہ میں قیام ممکن نہیں تو انہوں نے اپنے آخری سفر کا ارادہ ظاہر کردیا۔
امام جانتے تھے کہ اب اس سفر کا وقت آن پہنچا ہے جس کا وعدہ خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بچپن میں لیا تھا۔ اور سید الشہدا ء نے اپنے عیال کو کوچ کا حکم دیا۔ امام حسین علیہ اسلام جانتے تھے کہ اگر وہ صرف جوانان بنی ہاشم کے ہمراہ کربلا میں وراد ہوئے تھے یہ اعتراض بھی اٹھایا جائے گا کہ شاید حسین علیہ اسلام جنگ کے ارادے سے آئے تھے اور پسپائی کی صورت میں شہادت اختیار کی۔ اس لیے اپنی مظلومیت اور بے وطنی کی سند کے لیے اپنے عیال کو بھی ہمراہ کیا۔ امام حسین علیہ اسلام نے جس راستے کا انتخاب کیا وہ عرب کی مصروف ترین شاہراہ تھی ۔ جس پر دنیا کے تقریبا تمام ممالک اور قوموں کے قافلے گزرتے تھے۔ امام حسین علیہ اسلام نے جس بھی جگہ قیام کیا اور جس بھی قافلے سے ملے ان کو امت کی ستم ظریفی اور اپنی مظلومیت سے آشنا کرتے گئے۔ اپنی شناخت کراتے گئے کہ کل کو کوئی یہ نہ کہے کہ امام حسین علیہ اسلام نے کربلا کے معرکے سے گریز کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اور کوئی یہ عذر نہ پیش کرسکے کہ امام حسین علیہ السلام کے کربلا کے کوچ کی کسی کو خبر ہی نہیں ہوئی۔ امام حسین علیہ اسلام نے حتی امکان کوشش کی کہ اپنے پاک لہو سے ناحق اہل کوفہ اور یزیدی فوج اپنے ہاتھ نہ رنگے اور گناہ کبیرہ کے مرتکب نہ ہوں۔
لیکن صد افسوس کہ جانشین پیغیمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر قدم پر اسلام کی حرمت اور اس کی تبلیغ کے لیے خدا کی مشیت اور حکم الہی کو بجا لایا ۔ ان کے پیروکاروں نے اس کو محض واقعہ یا موضوع بحث بنا چھوڑا ہے۔ واقعہ کربلا کا ہر لمحہ ، ہر افراد اپنے اندر شعائر زندگی ہے۔ اہل و عیال سے لے کر دوست احباب کے چنائو اور سفر سے قیام تک احکام الہی کی بجاآوری اور ہر حال میں صبروشکر پروردگار کی مثال کربلا سے بہتر اور کہیں مل نہیں سکتی۔ لیکن ہوا کچھ یوں کہ ہم نے تحقیق اور تشریح کے فرائض علمائے اور مولانا کے حوالے کر کے خود کو ان کے پیچھے تو نہیں لگا لیا؟ لیکن یہ سوچنے کا وقت بھی شاید ہمارے پاس نہیں کیونکہ ہم تو ایک دوسرے کے عقائد پر تنقید اور بحث و مباحثے میں مصروف کار ہیں۔ ہم صرف سنتے ہیں اور اسے سچ سمجھ کر اس پر یقین کر لیتے ہیں اور یہ زحمت بھی نہیں کرتے کہ جو آیت ہمیں بتائی جا رہی ہے جو ریفرنس ہمیں دیا جا رہا ہے کیا وہ حقیقت پر مبنی ہے یا اس کی تشریح تعصب کی عینک پہن کر کی جا رہی ہے۔ ہم ایک اسیے معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں مزار وں اور درگاہوں پر تل دھرنے کی جگہ نہیں لیکن لائبریوں میں اکا دکا شخص دکھائی دیتا ہے۔ جہاں مسجد اور امام بارگاہ میں منبر پر چرب زبانوں کی واہ واہ ہوتی ہے۔ لیکن کیا ہمیں یہی سکھانے کے لیے واقعہ کربلا ہوا تھا؟ ہم اپنے حالات و واقعات پر رو رہے ہیں ۔ ہم کشمیر کے مسلمانوں پر دہائیا ں دے رہے ہیں۔ فلسین ، قبرص، برما اور یمن شام کے مسلمانوں کی مظلومیت پر رونا روتے ہیں ۔ لیکن کیا یہ سب ہماری اپنے ایمان کی کمزوری اور اعتقاد کی پستی نہیں ہے؟
سوالات کی اس دلدل میں دھنسنے کی بجائے ہمیں امام حسین علیہ اسلام اور شہدائے کربلا کی قربانی کی اصل روح کو سمجھنا ہوگا۔ ہمیں تاریخ کی کتابوں سے رشتہ جوڑنا ہو گا۔ ہمیں سنی سنائی باتوں کی بجائے تحقیق کو اپنا شعار بنانا ہوگا۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مذہب کسی کا ذاتی مسئلہ ہے تو پھر پاکستان کا مطالبہ کس بنیاد پر کیا گیا تھا؟ دنیا میں مذہب اور معیشیت ہی دو ایسے محرکات ہیں جن پر جنگ و جدل جاری ہے۔ طاقت کا حصول انہی دو وجوہات کے پیش نظر ہے۔ کوئی خطہ کوئی قوم، کوئی ملک ان سے مبرا نہیں ہے۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ مذہب قوموں کی بقا کا ضا من ہے۔ جن قوموں نے اپنے مذہب کو ایک کونے میں رکھ دیا ۔ خود کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے اندھے کنویں پھینک دیا اور قرآن کو الماریوں اور شو کیس کی زینیت بنا دیا ۔ ان قوموں کی تنزلی پر حیرت خود حیران کن ہے۔ واقعہ کربلا کو صرف دس دن تک محیط کرنے کی بجائےزندگی کا شعار بنائیں ۔ صرف لبا س کو تبدیل کرنے کی بجائے کردار کو تبدیل کریں ۔ اور یہ بھی کہ محرم ، کربلا اور شہدائے کربلا کو کسی ایک فرقے کی میراث قرار دے کر خود کو اس سے لاتعلق کرنے کی بجائے اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سارے عالمین کے نبی اور رسول ہیں ۔ ان ک اہل بیت سلام اللہ علہیم اجمعین سے محبت ہر مسلمان پر واجب ہے۔ اس لیے ان سے محبت میں مصلحت سے کام لینا معرفت نہیں ۔اس لیے دائرہ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجائیں جیسا کہ نبی آخر الزمان کا حکم ہے۔ امر بالمعروف نہی عن المنکر کا بنیادی نکتہ برے کو برا کہنا اور حق کو حق کہنا ہے۔ خدا ئے بزرگ و برتر ہمیں حق کی طرف پہلا قدم بڑھانے کا حوصلہ و ہمت عطا فرمائے۔ آمین
’’ان الحسین مصباح الہدیٰ و سفینۃ النجاۃ۔۔ بیشک حسین ؑ ہدایت کا چراغ اور نجات کی کشتی ہے۔‘‘