اکثر تاریخی مصادر میں آیا ہے کہ امام حسینؑ اور آپ کے اصحاب 2 محرم سنہ 61 ہجری کو کربلا کی سر زمین پر پہنچے ہیں،تاہم دینوری نے کربلا میں امام حسینؑ کی آمد کی تاریخ کو یکم محرم الحرام، قرار دی ہے۔ اور اس قول کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
جب حر نے امامؑ سے کہا: "یہیں اتریں کیونکہ فرات قریب ہے”۔
امامؑ نے فرمایا: "اس جگہ کا نام کیا ہے؟”۔
سب نے کہا: كربلا۔
فرمایا: یہ كَرْب (رنج) اور بَلا کا مقام ہے۔ میرے والد صفین کی طرف جاتے ہوئے یہیں اترے اور میں آپ کے ساتھ تھا۔ رک گئے اور اس کا نام پوچھا۔ تو لوگوں نے اس کا نام بتا دیا اس وقت آپ نے فرمایا: "یہاں ان کی سواریاں اترنے کا مقام ہے، اور یہاں ان کا خون بہنے کا مقام ہے”، لوگوں نے حقیقت حال کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: "خاندان محمدؐ کا ایک قافلہ یہاں اترے گا”۔
امام حسینؑ نے فرمایا: یہ ہماری سواریاں اور ساز و سامان اتارنے کی جگہ ہے اور [یہاں] ہمارا خون بہنے کا مقام ہے۔ اور اس کے بعد حکم دیا کہ سازوسامان یہیں اتار دیا جائے اور ایسا ہی کیا گیا اور وہ پنج شنبہ (جمعرات) دو محرم کا دن تھا۔ و اور ایک روایت کے مطابق یہ چہارشنبہ (بدھ) یکم محرم سنہ 61 کا دن تھا۔
منقول ہے کہ کربلا میں پڑاؤ ڈالنے کے بعد، امام حسینؑ نے اپنے فرزندوں، بھائیوں اور اہل خاندان کو اکٹھا کیا اور ان سب پر ایک نگاہ ڈالی اور روئے؛ اور فرمایا:
"اللهم انا عترة نبيك محمد، وقد اخرجنا وطردنا، وازعجنا عن حرم جدنا، وتعدت بنو امية علينا، اللهم فخذ لنا بحقنا، وانصرنا على القوم الظالمين”۔
ترجمہ: خداوندا! ہم تیرے نبیؐ کی عترت اور خاندان ہیں جنہیں اپنے [شہر و دیار سے] نکال باہر کیا گیا ہے اور حیران و پریشان اپنے نانا رسول اللہؐ کے حرم سے نکالا گیا ہے؛ اور [بار خدایا!] بنو امیہ نے ہمارے خلاف جارحیت کی؛ خداوندا! پس ان سے ہمارا حق لے لے اور ظالموں کے خلاف ہماری نصرت فرما”۔
اس کے بعد آپ نے اصحاب کی طرف رخ کیا اور فرمایا:
” ان الناس عبيد الدنيا، والدين لعق على السنتهم، يحوطونه ما درت معايشهم، فإذا محصوا بالبلاء قل الديانون”۔ ترجمہ: لوگ دنیا کے غلام ہیں اور دین صرف ان کی زبانوں تک محدود ہے اس وقت تک دین کی حمایت و پشت پناہی کرتے ہیں جب تک ان کی زندگی فلاح و رفاہ میں ہو اور جب بھی بلاء اور آزمائش کی گھڑی ہو تو دیندار بہت قلیل ہیں۔
اس کے بعد امامؑ نے سرزمین کربلا کو ـ جس کا رقبہ 4 مربع میل تھا ـ نینوی’ اور غاضریہ کے باشندوں سے 60000 درہم کے عوض خرید لیا۔ اور ان پر شرط رکھی کہ آپ کی قبر کی طرف لوگوں کی راہنمائی کریں گے اور تین تک ان کی پذیرائی اور ضیافت کا اہتمام کریں گے۔
دو محرم سنہ 61 ہجری کو امام حسینؑ اور اصحاب کربلا میں حسینؑ کے سرزمین کربلا پر اترنے کے بعد، حر بن يزيد ریاحی نے ایک خط عبید اللہ بن زیاد کے لئے لکھا اور اس کو اس امر کی اطلاع دی۔حر کا خط ملتے ہی عبید اللہ نے ایک خط امام حسینؑ کے نام بھیجا جس میں اس نے لکھا تھا:
"امّا بعد، اے حسینؑ! کربلا میں تمہارے پڑاؤ ڈالنے کی خبر ملی؛ امیر المؤمنین!! یزید بن معاویہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ چین سے نہ سؤوں اور پیٹ بھر کر کھانا نہ کھاؤں حتی کہ تمہیں خدائے دانائے لطیف سے ملق [قتل] کروں یا پھر تمہیں اپنے حکم اور یزید کے حکم کی تعمیل پر آمادہ کروں!۔ والسلام”۔
مروی ہے کہ امام حسینؑ نے پڑھنے کے بعد خط کو ایک طرف پھینک دیا اور فرمایا:
"جن لوگوں نے اپنی رضا اور خوشنودی کو خدا کی رضا اور خوشنودی پر مقدم رکھا وہ ہرگز فلاح نہ پاسکیں گے”۔ ابن زیاد کے قاصد نے کہا: "یا ابا عبداللہ! آپ خط کا جواب نہیں دیں گے؟ فرمایا: "اس خط کا جواب اللہ کا دردناک عذاب ہے جو بہت جلد اس کو اپنی لپیٹ میں لے گا”۔قاصد ابن زیاد واپس چلا گیا اور امام حسینؑ کا کلام اس کے سامنے دہرایا اور عبید اللہ نے امامؑ کے خلاف جنگ کے لئے لشکر تشکیل دینے کا حکم دیا۔
عمر بن سعد ملعون کی کربلا آمد
عمر سعد امامؑ کے کربلا میں پڑاؤ ڈالنے کے دوسرے روز ـ یعنی تین محرم الحرام کو 4000 افراد کے لشکر کے ساتھ کربلا پہنچا۔ عمر سعد کی کربلا آنے کی کیفیت کے بارے میں منقول ہے:
"عبید اللہ بن زياد نے عمر سعد کو چار ہزار کوفیوں کے لشکر کا امیر قرار دیا اور حکم دیا کہ وہ ان کوفیوں کو رے اور دَستَبی” لے کر جائے اور ان علاقوں پر قابض دیلمیوں کے خلاف جنگ کرے۔ عبید اللہ نے پہلے ہی رے کی حکومت کا حکم عمر سعد کے نام پر لکھ دیا تھا اور اس کو رے کا والی مقرر کیا تھا۔ ابن سعد اپنے لشکر کے ساتھ کوفہ سے باہر نکلا اور "حمام اعین” کے مقام پر لشکرگاہ قائم کی۔ وہ رے جانے کے لئے تیاری کررہا تھا کہ اسی اثناء میں امام حسین علیہ السلام کے قیام کا مسئلہ پیش آیا؛ اور جب امام حسینؑ نے کوفہ کی طرف عزیمت کی تو ابن زیاد نے عمر سعد کو بلوایا اور حکم دیا: "پہلے امام حسینؑ سے جنگ کرنے جاؤ اور اس جنگ سے فارغ ہونے کے بعد اپنی حکومت کے مقام کی طرف کوچ کرو”۔ عمر سعد امام حسینؑ کے ساتھ جنگ کو پسندید نہیں کرتا تھا چنانچہ اس نے عبید اللہ بن زیاد سے کہا: "مجھے اس کام سے معاف کرو”؛ لیکن ابن زیاد نے اس جنگ سے عمر سعد کی معافی کو رے کی حکومت کا حکم واپس کرنے سے مشروط کیا۔
عمر سعد نے جب چون اصرار ابن زیاد کا اصرار دیکھا تو کہا: (میں کربلا) جاتا ہوں”۔چنانچہ اپنا چار ہزار افراد کا لشکر لے کر کربلا پہنچا اور نینوی’ کے مقام پر امام حسینؑ کے اترنے کے دوسرے روز وہ بھی وہاں پہنچا۔
امام حسین ؑ اور عمر ابن سعد کے درمیان مذاکرات کا آغاز
عمر ابن سعد نے کربلا پہنچتے ہی امام حسینؑ کے ہاں ایک قاصد روانہ کرنا چاہا تا کہ آپؑ سے پوچھ لے کہ "۔۔۔اس سرزمین میں کس لئے آئے ہیں اور چاہتے کیا ہیں؟”۔ اس نے یہ کام عزرہ (عروہ) بن قیس احمسی اور امامؑ کو دعوت نامے بھجوانے والے عمائدین کو انجام دینے کی تجویز دی؛ مگر ان سب نے یہ کام انجام دینے سے اجتناب کیا۔ تاہم كثير بن عبداللہ شعیبہ نے تجویز مان لی اور خیام حسینی کی جانب روانہ ہوا، لیکن او ثمامہ صائدی نے اس کو ہتھیار لے کر امامؑ کے حضور پنچنے سے روک لیا، کثیر نامراد ہوکر عمر ابن سعد کے پاس لوٹ کر چلا گیا۔کثیر کی واپسی پر عمر ابن سعد نے قرة بن قيس حنظلى سےامامؑ کے پاس جانے کی درخواست کی۔
امام حسینؑ نے عمر کے پیغام کے جواب میں قرہ بن قیس سے فرمایا: "تمہارے شہر کے لوگوں نے مجھے خطوط لکھے کہ یہاں آجاؤں، اب اگر وہ مجھے نہيں چاہتے تو میں واپس چلا جاتا ہوں”۔ عمر ابن سعد اس جواب سے خوش ہوا پس ایک خط ابن زیاد کو لکھا اور اس کو امام حسینؑ کے اس کلام سے آگاہ کیا۔ابن زياد نے عمر ابن سعد کے خط کے جواب میں اس سے تقاضا کیا کہ امام حسین اور آپ کے اصحاب سے یزید بن معاویہ کے لئے بیعت لے۔
ابن زياد کی مزید لشکر بھجوانے کی کوشش
کربلا میں امام حسینؑ کے آنے کے بعد ابن زیاد نے کوفیوں کو مسجد میں جمع کیا اور ان کے بزرگوں کے درمیان یزید کے بھیجے گئے تحفے تقسیم کئے جو 4000 دینار اور دو لاکھ درہم تک تھے؛ اور انہیں دعوت دی کہ کربلا جاکر امام حسینؑ کے خلاف جنگ میں عمر سعد کی مدد کریں۔
ابن زياد نے کوفہ کی کارگزاری عمرو بن حریث کے سپرد کردی اور خود نخیلہ میں خیمے لگا کر بیٹھ گیا اور لوگوں کو بھی نخیلہ پہنچنے پر مجبور کیا۔ اور کوفیوں کو کربلا جاکر امام حسینؑ سے جاملنے سے باز رکھنے کی غرض سے پل کوفہ پر قبضہ کیا اور کسی کو بھی اس پل سے نہیں گذرنے دیا۔ ابن زیاد نے حصین بن نمیر کو 4000 کے لشکر کے ساتھ قادسیہ سے نخیلہ بلوایا۔ ابن زیاد نے محمد بن اشعث بن قیس کندی، کثیر بن شہاب اور قعقاع بن سوید کو بھی حکم دیا کہ لوگوں کو |ابو عبداللہ الحسینؑ کے ساتھ جنگ کے لئے تیار کریں۔ ابن زیاد نے سويد بن عبدالرحمن منقرى کو چند سوار دے کر کوفہ میں تحقیق کرکے ان لوگوں کا سراغ لگانے اور اپنے پاس لانے کا ہدف دیا جو ابو عبداللہ الحسینؑ کے ساتھ جنگ پر جانے سے اجتناب کررہے تھے۔ سوید نے کوفہ میں تلاش و تحقیق کے بعد ایک شامی مرد کو پکڑ کر ابن زیاد کے پاس بھجوایا جو اپنی میراث طلب کرنے کوفہ آیا تھا۔ ابن زیاد نے کوفیوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے اس شخص کے قتل کا حکم دیا۔ لوگوں نے جب یہ دیکھا تو سب نخیلہ کی طرف روانہ ہوئے۔
نخیلہ میں بڑی تعداد میں لوگ اکٹھے ہوئے تو ابن زیاد نے حصين بن نمير، حجار بن ابجر، شبث بن ربعى اور شمر بن ذی الجوشن کو ابن سعد کی مدد کے لئے اس کی لشکر گاہ جا پہنچنے کا حکم دیا۔ شمر نے سب سے پہلے حکم کی تعمیل کی اور روانگی کے لئے تیار ہوا۔ شمر کے بعد حصین بن نمیر 4000 کے لشکر کے ساتھ، مُصاب مارى (مُضاير بن رہینہ مازِنى) 3000 کے لشکر کے ساتھ اور حصين بن نمیر دو ہزار کے لشکر کے ساتھ اور نصر بن حَربہ 2000 کے لشکر کے ساتھ ابن سعد سے جا ملے۔ اس کے بعد ابن زیاد ایک آدمی شبث بن ربعی کی طرف روانہ کیا اور اس کو حکم دیا کہ ابن سعد سے جاملے۔ وہ بھی ایک ہزار سوار لے کر عمر بن سعد کی لشکر گاہ میں پہنچا۔شبث کےبعد حجار بن ابجر ایک ہزار سوار اور اس کے بعد محمد بن اشعث ایک ہزار سوار لے کر کربلا پہنچا اور ان کے بعد حارث بن يزيد بھی حجاربن ابجر کے پیچھے پیچھے کربلا روانہ ہوا۔
ابن زیاد ہر روز صبح اور شام کوفیوں فوجیوں کے 25، 30 اور 50 افراد پر مشتمل دستے کربلا روانہ کرتا تھا حتی کہ چھ محرم الحرام کو ابن سعد کی سپاہ کی تعداد 20ہزار افراد سے تجاوز کرگئی۔ابن زیاد نے عمر بن سعد کو اس لشکر کا سپہ سالار قرار دیا۔
حبیب بن مظاہر اور امام حسینؑ کے لئے لشکر جمع کرنے کی کوشش
کربلا میں دشمن کا لشکر اکٹھا ہونے کے بعد حبیب بن مظاہر اسدی امام(ع( کے مختصر سے لشکر کے پیش نظر، امامؑ کی اجازت سے، بھیس بدل کر قبیلہ بنی اسد پہنچے اور ان سے بنت رسولؐ کے لئے مدد کی دوخواست کی۔
بنی اسد رات کے وقت خیام امامؑ کی جانب رواں دواں تھے کہ عمر بن سعد نے ازرق بن حرب صیداوی کی سرکردگی میں 400 یا 500 سواروں کا ایک دستہ بھیج کر فرات کے کنارے، ان کا راستہ روکا؛ بات جھڑپ شروع ہونے تک پہنچی اور بنی اسد جہاں سے آئے تھے وہیں لوٹ کر چلے گئے؛ چنانچہ حبیب بن مظاہر اکیلے واپس آگئے۔
سات محرم اور پانی کی بندش
سات محرم کو ابن زیاد نے عمر بن سعد کو حکم دیا کہ "حسینؑ اور آپ کے اصحاب اور پانی کے درمیان حائل ہوجائے اور اور انہیں پانی کا ایک قطرہ بھی نہ پینے دے۔
خط ملتے ہی ابن سعد نے عمرو بن حجاج زبیدی کو 500 سوار دے کر فرات کے کنارے پر تعینات کیا اور حکم دیا کہ امام حسینؑ اور اصحاب حسین کو پانی تک نہ پہنچنے دے۔
بعض مصادر میں مروی ہے کہ "پانی کے بندش اور پیاس کے شدت اختیار کرنے کے بعد، امام حسینؑ نے بھائی عباس کو بلوایا اور انہیں 30 سواروں اور 20 پیادوں کی سرکردگی میں پانی لانے کے لئے فرات کی طرف روانہ کیا۔ وہ رات کے وقت فرات کی طرف روانہ ہوئے جبکہ نافع بن ہلال جملی پرچم لے کر اس دستے کے آگے آگے جارہے تھے؛ یہ افراد عباسؑ کی قیادت میں شریعۂ فرات تک پہنچ گئے۔ عمرو بن حجاج زبیدی، ـ جو فرات کی حفاظت پر مامور تھا ـ اصحاب حسینؑ کے ساتھ لڑ پڑا۔ اصحاب حسینؑ کے ایک گروہ نے مشکوں میں پانی بھر دیا اور علمدار حسینؑ اور نافع بن ہلال سمیت باقی افراد نے دشمن سے لڑ کر ان کی حفاظت کی تا کہ وہ سلامتی کے ساتھ پانی کو خیام تک پہنچا دیں۔ اور یوں حسینؑ کے اصحاب پانی خیام تک پہنچانے میں کامیاب ہو گئے۔
عمر بن سعد کے ساتھ امام حسینؑ کی آخری مذاکرات
عمر بن سعد کی لشکرگاہ میں پےدرپے لشکروں کی آمد کے بعد امام حسینؑ عمرو بن قرظہ انصارى کو عمر بن سعد کے پاس روانہ کیا اور اس کو کہلا بھیجا کہ "میں آج دو لشکرگاہوں کے درمیانی نقطے پر تم سے ملنے، آؤں گا”، امام حسینؑ اور عمر بن سعد دونوں بیس بیس سواروں کے ہمراہ مقررہ مقام پر حاضر ہوئے۔ امام حسینؑ نے بھائی ابوالفضل العباس اور بیٹے علی اکبرؑ کے سوا باقی اصحاب کو حکم دیا کہ کچھ فاصلے پر جاکر کھڑے ہوجائیں۔ ابن سعد نے بھی بیٹے حفص اور اپنے غلام کو قریب رکھا اور باقی افراد کو پیچھے ہٹا دیا۔ اس ملاقات میں امامؑ نے عمر بن سعد سے فرمایا: "۔۔۔ اس غلط خیال اور غیر صواب خیالات اور منصوبوں کو نظر انداز کرو اور ایسی راہ اختیار کرو جس میں تمہاری دنیا اور آخرت کی خیر و صلاح ہو۔۔۔”۔عمر نہ مانا۔ امامؑ جب یہ حالت دیکھی تو اپنے خیام کی طرف واپسی اختیار کی جبکہ فرما رہے تھے: "خدا تمہیں ہلاک کردے اور قیامت کے دن تمہیں نہ بخشے؛ مجھے امید ہے کہ اللہ کے فضل سے، تم عراق کی گندم نہ کھا سکوگے”۔
امامؑ اور ابن سعد کے درمیان مذاکرات کا یہ سلسلہ تین یا چار مرتبہ دہرایا گیا۔
ایک عجیب روایت
کہا گیا ہے کہ ان ہی مذاکرات کے ایک دور کے آخر میں عمر بن سعد نے ایک خط میں میں ابن زیاد کو لکھا:
"… حسین بن علیؑ نے میرے ساتھ عہد کیا ہے کہ جہاں سے آئے ہیں وہیں واپس جائیں؛ یا اسلامی ممالک کے کسی سرحدی علاقے میں چلے جائیں اور حقوق و فرائض میں دوسرے مسلمانوں کی مانند ہوں اور مسلمانوں کے فائدے اور نقصان میں شریک ہوں؛ یا پھر خود یزید کے پاس چلے چلے جائیں تا کہ وہ [(یزید)] ان کے بارے میں فیصلہ دے اور اس فیصلے کو نافذ کرے اور یہی آپ کی خوشنودی کا باعث اور امت کی مصلحت ہے!”
خط ابن زیاد نے پڑھا اور کہا: "یہ اس مرد کا خط ہے جو اپنے امیر کا خیرخواہ اور اپنی قوم پر شفیق ہے!”۔ ابن زیاد اس تجویز کو قبول ہی کرنے والا تھا کہ شمر بن ذی الجوشن ـ جو مجلس میں حاضر تھا ـ رکاوٹ بنا؛ چنانچہ ابن زیاد نے شمر بن ذی الجوشن کو قریب بلایا اور کہا: "یہ خط عمر بن سعد کو پہنچا دو تا کہ وہ حسین بن علیؑ اور ان کے اصحاب سے کہہ دے کہ وہ میرے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کریں، اگر وہ قبول کریں تو انہیں صحیح سلامت میرے پاس روانہ کرے اور اگر قبول نہ کریں تو ان کے ساتھ جنگ کرے؛ اگر عمر سعد جنگ کرے تو اس کی اطاعت کرو اور اگر جنگ سے اجتناب کرے تو حسین بن علیؑ کے ساتھ جنگ کرو کیونکہ [اس کے بعد] سالار قوم تم ہو؛ اس کے بعد عمر بن سعد کا سر قلم کرکے میرے پاس بھیج دو۔”
اس کے بعد ابن زیاد نے عمر بن سعد کو ایک خط لکھا جس کا مضمون یہ تھا:
"… میں نے تمہیں (کربلا) نہیں بھیجا کہ حسین بن علیؑ سے مصالحت کرو یا ان کے ساتھ مسامحت سے کام لو اور ان کے لئے سلامتی اور زندہ رہنے کی آرزو کرو اور میرے ہاں اس کی شفاعت کرو؛ دیکھو اگر حسین بن علیؑ اور ان کے ساتھی میرے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں اور [یزید کی بیعت کرتے ہیں] تو انہیں صحیح سلامت میرے پاس روانہ کرو اور اگر قبول نہيں کرتے تو ان پر حملہ کرو اور ان کا خون بہاؤ اور ان کے جسموں کا مثلہ کرو کیونکہ وہ اس کے حقدار ہیں؛ جب حسین مارے جائیں تو ان کے سینے اور پشت پر گھوڑے دوڑاؤ کیونکہ وہ سرکش اور اہل ستم ہیں!! اور میں نہیں سمجھتا کہ اس کام سے موت کے بعد کوئی نقصان پہنچے گا؛ لیکن میں نے عہد کیا ہے کہ اگر میں نے انہیں قتل کیا تو ان کے بےجان جسم کے ساتھ یہی سلوک روا رکھوں؛ پس اگر تم نے اس حکم کی تعمیل کی تو ہم [یعنی میں اور یزید] تمہیں ایک فرمانبردار شخص کی پاداش دیں گے اور اگر قبول نہیں کرتے ہو تو ہمارے معاملے اور ہمارے لشکر سے دستبردار ہوجاؤ اور لشکر کو شمر بن ذی الجوشن کی تحویل میں دیدو، ہم نے اس کو اپنے امور کے لئے امیر مقرر کیا۔ والسلام۔
۔۔۔۔؟؟حقیقت کیا ہے
اس روایت میں کچھ حقائق بھی ہیں؛ یہ بات روایات میں منقول ہے کہ عمرسعد نے مسئلے کو بغیر جنگ کے حل کرنے اور اپنے، ابن زیاد اور یزید کے مقاصد پورے کرنے کی کوشش کی اور یہ بھی درست ہے کہ ابن زیاد نے ابن سعد کے لئے غیر انسانی احکامات بھجوائے (اور البتہ یہ بھی درست ہے کہ (عمر بن سعد نے ان احکامات پر من و عن عملدرآمد کیا) لیکن یہ دعوی درست نہیں ہوسکتا کہ امامؑ یزید کے ہاتھ میں ہاتھ رکھنے کی خواہش کی تھی اور اس کے ثبوت ایک سے زیادہ ہیں:
حاکم شام کی موت اور مسلمانوں کی قسمت کے فیصلے یزید کے ہاتھ میں چلے جانے کے بعد ولید بن عتبہ اور مروان بن حکم نے حضرت سید الشہداء سے کہا کہ یزید کی بیعت کریں تو آپ نے فرمایا:”يزيد رجل فاسق شارب الخمر قاتل النفس المحترمة معلن بالفسق ومثلى لايبايع مثله”۔
ترجمہ: "یزید ایک فاسق، شرابی، قاتل شخص ہے جو اعلانیہ فسق و گناہ کرتا ہے اور مجھ جیسا کوئی اس جیسے کسی کی بیعت نہیں کرتا”۔ بے شک اگر تحریک عاشورا کا ایک ہدف و مقصد یہی تھا تو یہ ابھی اپنی جگہ قائم تھا اور کسی نے بھی کہیں یہ نہیں لکھا کہ یزید اس عرصے میں توبہ کرکے اسلامی شریعت کا تابع مطلق بن چکا تھا۔ چنانچہ امام حسین علیہ السلام کے یزید کے پاس جانے کی کوئی وجہ نہ تھی۔
اور پھر امامؑ یزید کو پہلے سے جانتے تھے۔ حتی ایک مرتبہ جب معاویہ نے ایک مجلس میں یزید کی تعریف کی تو آپ نے شدید احتجاج کیا، اس کی برائیاں بیان کردیں اور یزید کے لئے بیعت لینے کے سلسلے میں معاویہ کی کوششوں کی مذمت کی۔
امامؑ نے اللہ کے ساتھ راز و نیاز کی حالت میں اپنے قیام کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: "اللهم إنك تعلم إنه لم يكن ما كان منا تنافسا في سلطان، ولا التماسا من فضول الحطام، ولكن لنري المعالم من دينك، ونظهر الاصلاح في بلادك، ويأمن المظلومون من عبادك، ويعمل بفرائضك وسنتك وأحكامك”۔
ترجمہ: "خدایا تو جانتا ہے کہ جو کچھ ہماری طرف سے انجام پایا ہے (منجملہ اموی حکمرانوں کے خلاف خطبات اور اقدامات)؛ فرمانروائی کے لئے مسابقت اور دنیا کی ناچیز متاع کے حصول میں سبقت لینے کی خاطر نہیں ہے بلکہ اس لئے ہے کہ تیرے دین کی نشانیاں لوگوں کو دکھا دیں اور بپا کریں اور تیری سرزمینوں میں اصلاح کے آشکار کردیں۔ ہم چاہتے ہيں کہ تیرے مظلوم بندے امان میں ہوں اور تیرے واجبات اور سنتوں پر عمل کیا جاتا رہے”۔
امامؐ نے اپنی تحریک کے آغاز میں فرمایا: میں اپنا وطن کسی شر و فساد پھیلانے اور ظلم و ستم کرنے کی خاطر نہیں چھوڑ رہا ہوں بلکہ مدینہ سے میری روانگی کا مقصد یہ ہے کہ اپنے نانا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کی امت کی اصلاح کروں؛ اور امر بالمعروف کروں اور نہیں عن المنکر کروں (نیکی کا حکم دوں اور برائیوں سے روکوں) اور اپنے نانا رسول اللہؐ اور بابا علی بن ابی طالبؑ کی سیرت پر عمل پیرا ہونا چاہتا ہوں۔
"یزید کی سیرت وہی فرعون کی سیرت تھی بلکہ فرعون اپنی رعیت میں یزید سے زیادہ عادل اور اپنے خاص و عام کے درمیان زيادہ منصف تھا”اس نے اپنی حکومت کے پہلے سال میں امام حسینؑ اور اہل بیت رسولؐ کو قتل کیا؛ اور دوسرے سال اس نے حرم رسول خداؐ (مدینہ) کی حرمت شکنی کی اور اس کو تین دن تک اپنے لشکریوں کے لئے حلال قرار دیا۔ اور تیسرے برس اس نے کعبہ کو جارحیت اور لوٹ مار کا نشانہ بنایا اور اس کو نذر آتش کیا”۔یزیدی حکومت کے ان رویوں سے بھی واضح ہے کہ امام حسینؑ کی طرف سے یزید کے پاس جانے اور اس کے ہاتھ کے ہاتھ میں ہاتھ رکھنے کی حکایت ایک افسانہ ہے۔
روز تاسوعا
9 محرم سنہ 61 ہجری کی شام کو شمر ابن زیاد کا حکم لے کر عمر سعد کے پاس کربلا پہنچا اور حکم نامہ عمر سعد کے حوالے کیا۔عمر بن سعد نے کہا: میں خود اپنی ذمہ داری نبھا لوں گا۔
شمر یا ایک اور قول کی بنا پر ام البنین(س) کے بھتیجے عبداللہ بن ابی المحل نے ام البنین کے بیٹوں کے لئے ابن زیاد سے امان نامہ لیا تھا عبداللہ بن ابی المحل نے امان نامہ اپنے غلام کزمان یا عرفان (یا کرمان) کے توسط سے کربلا بھجوایا اور اس نے کربلا پہنچتے ہی امان نامے کا متن ام البنین(س) کے بیٹوں (عباس بن علی عبداللہ بن علی، جعفر بن علی اور عثمان بن علی) کو پڑھ کر سنایا؛ تاہم انھوں نے امان نامہ مسترد کیا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ شمر نے ابن زیاد کا امان نامہ خود کربلا لے کر آیا اور عباس بن علی اور ان کے بھائی عبداللہ بن علی، جعفر بن علی اور عثمان بن علی کو پڑھ کر سنایا، تاہم عباسؑ اور ان کے بھائیوں نے اتفاق رائے سے امان نامہ مسترد کیا۔
شیخ مفید نے شمر اور ام البنین کے بیٹوں کی گفتگو کو یوں نقل کیا ہے، شمر نے کہا: اے میرے بہانجو آپ لوگوں کی جان محفوظ ہے۔ اس پر حضرت عباس اور ان کے بھائیوں نے کہا: خدا تم اور تمارے امان پر لعنت کرے، ہمیں امان دیتے ہو درحالیکہ فرزند رسول خدا کے لئے امان نہیں ہے؟
شبِ عاشور کے واقعات
اصحاب کا تجدید عہد
امام حسینؑ نے رات کے ابتدائی حصے میں اپنے اصحاب کو جمع کیا اور خدا کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:
میرے خیال میں یہ آخری رات ہے جو دشمن کی طرف سے ہمیں مہلت دی گئی ہے۔ آگاہ ہو جاؤ کہ میں نے تمہیں جانے کی اجازت دے دی ہے۔ پس سب کے سب مطمئن ہو کر یہاں سے چلے جائیں کیونکہ میں نے تمہاری گردن سے میری بیعت اٹھا لی ہے۔ اب جبکہ رات کی تاریکی چھا گئی ہے اس سے فائدہ اٹھا کر سب چلے جائیں۔
اس موقع پر سب سے پہلے آپ کے اہل بیت پھر آپ کے اصحاب نے پرجوش انداز میں امام کے ساتھ وفاداری کا اعلان کیا اور اپنی جانوں کو آپ پر قربان کرنے اور آپ سے دفاع کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ تاریخی مصادر میں اس گفتگو کے بعض حصوں کو ذکر کیا گیا ہے۔
اصحاب کی وفاداری کے حوالے سے حضرت زینب(س) کی نگرانی
آدھی رات کو ابو عبداللہ الحسینؑ اطراف میں واقع پہاڑیوں اور دروں کا معائنہ کرنے کے لئے باہر نکلے تو نافع بن ہلال جملی کو معلوم ہوا اور امامؑ کے پیچھے پیچھے روانہ ہوئے۔
خیام کے اطراف کا معائنہ کرنے کے بعد امام حسینؑ بہن زینب کبری(س) کے خیمے میں داخل ہوئے۔ نافع بن ہلال خیمے کے باہر منتظر بیٹھے تھے اور سن رہے تھے کہ زینب(س) نے بھائی سے عرض کیا:
کیا آپ نے اپنے اصحاب کو آزمایا ہے؟ مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ لوگ بھی ہم سے منہ پھیر لیں اور جنگ کے دوران آپ کو دشمن کے حوالے کر دیں”۔
امام حسین ؑ نے فرمایا: "خدا کی قسم! میں نے انہیں آزما لیا ہے اور انہیں سینہ سپر ہو کر جنگ کیلئے اس طرح آمادہ پایا ہے کہ گویا یہ لوگ میری رکاب میں جنگ کرنے کو شیرخوار بچے کی اپنی ماں کے ساتھ رکھنے والی انسیت کی طرح انس رکھتے ہیں۔
نافع نے جب محسوس کیا کہ اہل بیتِ امام حسینؑ آپ کے اصحاب کی وفاداری کے سلسلے میں فکرمند ہیں چنانچہ وہ حبیب بن مظاہر اسدی سے مشورہ کرنے گئے اور دونوں نے آپس کے مشورے سے فیصلہ کیا کہ دوسرے اصحاب کے ساتھ مل کر امامؑ کے اہل بیتِ کو یقین دلائیں کہ اپنے خون کے آخری قطرے تک امام حسینؑ کا دفاع کریں گے۔
حبیب بن مظاہر نے اصحاب امام حسین ؑ کو بلایا، بنی ہاشم کو خیموں میں واپس بھیج دیا پھر اصحاب سے مخاطب ہو کر جو کچھ نافع نے امام حسینؑ اور حضرت زینب سے سنا تھا، کو دھرایا۔
تمام اصحاب نے کہا: "اس خدا کی قسم جس نے ہمارے اوپر احسان کرکے ہمیں اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے، اگر امام حسینؑ کے حکم کی انتظار میں نہ ہوتا تو ابھی ان (دشمنوں) پر حملہ کرتے اور اپنے جانوں کو امام پر قربان کرنے کے ذریعے پاک اور اپنی آنکھوں کو بہشت کی دیدار سے منور کرتے۔”
حبیب ابن مظاہر دوسرے اصحاب کے ہمراہ ننگی تلواروں کے ساتھ حرم اہل بیت کے قریب گئے اور بلند آواز سے کہا: "اے حریم رسول خداؐ یہ آپ کے جوانوں اور جوانمردوں کی شمشیریں ہیں جو کبھی بھی نیام میں واپس نہ جائيں یہاں تک کہ آپ کے بدخواہوں کی گردنوں پر اتر آئیں؛ یہ آپ کے فرزندوں کے نیزے ہیں اور انھوں نے قسم اٹھا رکھی ہیں انہیں صرف اور صرف ان لوگوں کے سینوں میں گھونپ دیں جنہوں نے آپ کی دعوت سے روگردانی کی ہیں۔
جاری ہے۔۔۔۔۔