شام غریباں، ادبیات اور فارسی زبان کے مرثیے میں روز عاشورا سورج غروب ہونے کےبعد، اور اس رات کی سوگواری و غم و الم کو کہتے ہیں،اس مجلس میں آل رسول صلی االلہ علیہ وآلہ وسلم پر عاشور کے دن تمام افراد کے شہید کیئے جانے کے بعد خیام میں یزید لشکر کی جانب سے آگ لگانے، مال و اسباب لُوٹنے کے بعد بچوں اور عورتوں کو قید کرکے ان پر ظلم و تشدد کے واقعات مسائب و الم کی سورت مین بیان کیئے جاتے ہیں جبکہ جو نوحے پڑھے جاتے ہیں وہ امام حسینؑ کے اہل بیت کی مصیبت اور واقعہ کربلا کے بعد بچوں اور اسیروں پر جو گزری اس بارے میں ہیں کہ اہل بیتؑ نے عاشور کی اندھیری رات کربلا کے بیابان میں شہداء کی لاشوں کے ساتھ کیسے گزاری۔۔؟؟ اس رات اورمحرم کی دوسری راتوں کے درمیان بعض اور رسومات میں فرق یہ ہے کہ اس رات کو عزاداران تمام لاائٹیں بجھا کر صرف معمولی اجالےمیں بیٹھ کر مصائب و غم بیان کرتے اور گریہ و زاری کرتے ہیں۔
لفظی اور اصطلاحی معنی
لفظ غریب کا ایک معنی، وطن سے دور ہونا ہے اور بعض اوقات جو بے یارو مددگار اور اکیلا رہ گیا ہو اس کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے، شام غریباں میں جو لوگ اپنے وطن سے دور اکیلے اور بے یارومددگار رہ گئے تھے ان کے تمام افرااد قتل کیئے جاچکے تھے صرف بچے، خواتین اور کچھ ضعیف و بیمار باقی رہ گئے تھے ان کی بیکسی و عالمِ تنہائی و غم کے لئے استعمال ہوا ہے۔اصطلاح اور فارسی زبان کے مرثیے میں، روز عاشور کے سورج غروب ہونے اور اس رات کی سوگواری کو کہا گیا ہے۔
واقعات
دشمن کی 40 ہزار کی ملعون فوج نے عاشور کے سارا دن لشکرِ حسینی کے 72 افراد بشمول نواسہ رسول امام حسین علیہ السلام کو شہید کرکے سورج غروب ہوتے ہی عورتوں اور بچوں کو خیموں سے باہر نکال دیا اور خیموں کو آگ لگا دی۔ اس وقت مستورات فریاد کرتی رہیں اور اپنے پیاروں کی لاشوں کو دیکھ کر اپنے منہ پر پیٹتی رہیں۔ عمر بن سعد نے شام عاشورا کو امام حسینؑ اورکربلا کے دوسرے شہداء کے سروں کو (سروں کی تعداد 72 تھی) شمر، قیس بن اشعث اور عمروبن حجاج اور عزرۃ بن قیس کے ہاتھوں ابن زیاد کے پاس بھیج دیا۔ عمر سعد اپنے لشکر کے ہمراہ اس رات کربلا میں ہی رُکا رہا اور دوسرے دن ظہر کے قریب اپنے سپاہیوں کے لاشوں کو دفن کرنے کے بعد اہل بیتؑ اور دوسرے بچے ہوئے افراد کو لے کر کوفہ کی جانب حرکت کی۔ قول کے مطابق محرم کی گیارہویں رات جسے شام غریباں کہتے ہیں حضرت زینبؑ نے نماز شب ترک نہ کی لیکن اس مصیبت اور صدمے کے باعث اس رات نماز شب بیٹھ کر ادا کی۔
شام غریباں کے سوگ کی تاریخ
زیارات کی کتاب میں عاشور کی عصر کے بارے میں زیارت موجود ہے جس میں حضرت پیغمبرؐ، امام علیؑ، حضرت فاطمہؑ اور امام حسن، یعنی جوعزادار تھے ان کی خدمت میں تسلیت عرض کرتے ہیں۔ شاید شام غریباں منانے کی رسم بھی اسی زیارت کی وجہ سے شروع ہوئی ہو۔
آداب ورسوم
شام غریباں تقریباً ایک مجلس کی طرح ہے، اس فرق کے ساتھ کے اس مجلس میں چراغ روشن نہیں کئے جاتے اور فقط کچھ موم بتیاں جلا کر روشنی کی جاتی ہے۔ اور عزادار اس رات کو جلوس یا علم برآمد نہیں کرتے اور نہ ہی زنجیر یا ماتم کرتے ہیں بلکہ پریشانی اور غم کی حالت میں مجلس برپا کرتے ہیں اور فقط گرہ زاری اور مصائب و نوحہ کرتے ہیں اور موضوع صرف سنہ 61 ہجری مین عاشور کی شام آلِ رسول کی مستورات وبچوں پر گزرنے والی قیامت کا ذکر ہوتا ہے، مجلس میں بتایا جاتا ہے کہ اہل بیتؑ کی عورتوں اور بچوں نے یہ تاریک اور بے پناہ رات کس طرح کربلا کے بیابان میں گزاری ہے۔
کربلا میں اس رات کو (لیله الوحشه) یعنی وحشت کی رات بھی کہتے ہیں. اور اس رات کو بچوں اور اسیروں کی یاد میں موم بتی جلاتے ہیں۔ پاکستان ، ہندوستان میں بھی یہ مجلس سورج غروب ہونے کے بعد منعقد ہوتی ہے اور اس مجلس میں اہل عزا اندھیرے میں اور زمین پر بیٹھتے اور گریہ و ماتم کرتے ہیں۔