امریکی صدر نے اپنی ایک ٹویٹ میں اس بات کا اعلان کرتے ہوئے لکھا کہ ‘میں نے کل رات جان بولٹن کو بتا دیا تھا کہ وائٹ ہاؤس میں ان کی خدمات کی ضرورت نہیں ہے۔‘امریکی صدر نے ٹویٹ میں لکھا کہ ‘مجھے ان کے بہت سے مشوروں سے سخت اختلاف تھا’۔ انھوں نے مزید کہا کہ اگلے ہفتے قومی سلامتی کا ایک نیا مشیر مقرر کیا جائے گا۔
یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب صدر ٹرمپ کی کابینہ میں طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی منسوخی کے بعد اختلافات کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری اسٹیفنی گریشام نے نامہ نگاروں کو بتایاکہ ‘(صدر) ان کی بہت سی پالیسیاں پسند نہیں کرتے تھے دونوں میں اختلافات تھے۔‘
یاد رہے کہ جان بولٹن، مائیکل فلن اور ایچ آر میک ماسٹر کے بعد صدر ٹرمپ کے تیسرے قومی سلامتی کے مشیر تھے۔اس کے جواب میں جان بولٹن نے ٹویٹ کیا ہے کہ انھوں نے پیر کی رات اپنے استعفی کی پیش کش کی تھی۔
وائٹ ہاؤس کے شیڈول کے مطابق جان بولٹن نے وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور وزیر خزانہ سٹیون منوچن کے ساتھ وائٹ ہاؤس بریفنگ کی میزبانی کرنی تھی جبکہ صدر ٹرمپ نے اس سے صرف دو گھنٹے قبل ہی ٹویٹ کیا تھا کہ قومی سلامتی کے مشیر کو برطرف کر دیا گیا ہے۔
صدر ٹرمپ کو مشورے دینے والی قومی سلامتی کونسل بولٹن کے ماتحت وائٹ ہاؤس کے اندر ایک الگ ادارہ بن گئی تھی۔ٹرمپ انتظامیہ کے ایک سابق سینیئر عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’وہ (بولٹن) باقی وائٹ ہاؤس سے الگ سے کام کرتے تھے۔‘حکام کے مطابق بولٹن اجلاسوں میں شریک نہیں ہوتے تھے اور وہ صرف اپنے اقدامات پر عمل کرتے تھے۔ حکام کے مطابق ’وہ اپنی حکومت خود چلا رہے تھے۔‘
وائٹ ہاؤس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ’بولٹن کی اپنی ترجیحات ہیں۔ انھوں نے صدر سے پوچھا نہیں کہ ‘آپ کی ترجیحات کیا ہیں؟’ وہ بولٹن کی ترجیحات تھیں۔‘جان بولٹن نے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی مخالفت کی تھی، جنھیں صدر ٹرمپ نے امریکہ میں امن مذاکرات کی دعوت دینے کے بعد مذاکرات کی منسوخی کا اعلان کر دیا تھا۔
صدر ٹرمپ کی پالیسی خاص طور پر اس وجہ سے تنقید کی وجہ بنی کیونکہ ان کو ایسے وقت میں مذاکرات کی دعوت کے لیے امریکہ بلایا جا رہا تھا جب 11 ستمبر 2001 کو امریکہ میں ہونے والے دہشت گرد حملے کی برسی قریب ہے جو طالبان کے حلیف گروہ القاعدہ نے کیے تھے۔