وفاقی وزیر قانون کہتے ہیں کہ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے آرٹیکل 149 کے نفاذ کا یہی درست وقت ہے، مسائل حل کرنے ہیں تو سخت اقدامات کرنا ہوں گے۔ فروغ نسیم کا کہنا ہے کہ وہ آرٹیکل 149(4) کے نفاذ کے حق میں ہیں، کراچی میں آئین کے آرٹیکل 140 اے کا نفاذ بھی ضروری بن گیا ہے، دیکھنا ہوگا لوکل ایکٹ 2013 آرٹیکل 140 اے سے کتنا تضاد رکھتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ آرٹیکل 149(4) گورنر راج کی بات نہیں کرتا، یہ وفاقی حکومت کو خصوصی اختیار دیتا ہے، اس سے متعلق شکایت کرنا پی پی کا حق ہے، ساری باتیں ابھی نہیں بتا سکتا، وقت آنے پر چیزیں سامنے آ جائیں گی۔وفاقی وزیر قانون نے کہا سندھ میں کوئی مداخلت نہیں کر رہے، ہم آئین میں رہتے ہوئے کام کر رہے ہیں، آرٹیکل 149(4 ) گورنر راج نہیں ڈائریکشن دیتی ہے، وفاقی حکومت سندھ میں گورنر راج نہیں لگا رہی۔
انھوں نے مزید کہا کہ دیکھنا ہوگا این ایف سی کے تحت حکومت سندھ کو کتنی رقم ملی ہے، سعید غنی اپنے بھائی ہیں ان کو مجھ سے زیادہ سیاست اور وکالت آتی ہے، وہ کہہ رہے ہیں ڈائریکشن دی جا سکتی ہے مداخلت نہیں، لیکن ڈائریکشن تب دی جاتی ہے جب مداخلت کرنا جائز ہو۔ فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ ابھی عوام کہہ رہی ہے کہ کراچی میں کچرا نہیں اٹھ رہا، جب گورنر راج لگائیں گے تو پھر کہیں گے کیوں لگا دیا، پیپلز پارٹی والوں نے 11 سال میں کیا کیا، این ایف سی سے کتنے پیسے ملے، سیلز ٹیکس کتنا صوبے سے ملتا ہے، یہ سب دیکھنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ابھی تو آرٹیکل 149 فور بتائی ہے اس کا دوسرا حصہ سامنے نہیں لا رہا۔ اس کو آگے کیسے لے کر چلنا ہے وہ بھی میرے ذہن میں ہے۔
وزیر قانون کا کہنا تھا کہ اسٹریٹجک کمیٹی، وزیر اعظم عمران خان اور وفاقی کابینہ کے سامنے اپنی تجاویز رکھے گی، وفاقی کابینہ اجازت دے گی تو پھر ایگزیکٹو آرڈر صوبائی حکومت کو جائے گا۔ صوبائی حکومت نہ مانی تو آرٹیکل 184 ون کے تحت سپریم کورٹ جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ صوبائی اور وفاقی حکومت کے تنازعات پر فیصلہ کر سکتا ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ آرٹیکل کے تحت وفاق کے حق میں آجاتا ہے تو صوبائی حکومت کو ماننا ہوگا، صوبائی حکومت نے فیصلہ نہ مانا تو عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی کا کیس بنے گا۔
فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے وکلا بڑے قابل ہیں، آئینی شقوں کا توڑ نکالیں ہمیں اچھا لگے گا۔ اختیارات منتقل نہیں کیے گئے اور بلدیاتی نظام کو ناکام کیا گیا۔ کراچی کے مسائل کا حل 18 ویں ترمیم کے بعد واحد اور آسان ہے۔ سندھ میں جو حالات ہیں ضروری ہے وفاق ایگزیکٹو آرڈر جاری کرے۔ عام آدمی نہیں سمجھتا اختیارات کی کیا جنگ ہے۔
انہوں نے کہا کہ گاربیج سسٹم، ویسٹ ڈسپوزل اور ماس ٹرانزٹ کا سسٹم بنانا ہوگا، عمران خان نے اس ایشو کو ٹیک اپ کیا اور کمیٹی بنائی ہے۔ وفاقی حکومت کراچی کے مسائل کا دیرپا حل چاہتی ہے۔ اختیار پیپلز پارٹی کے پاس ہے۔ پیپلز پارٹی 140 اے کے تحت اختیار لوکل گورنمنٹ کو نہیں دے رہی۔
وزیر قانون کا کہنا تھا کہ مجھے بتایا جائے کہ کیا کراچی کے عوام یہاں کےحالات سے خوش ہیں؟ ورلڈ بینک کی رپورٹ ہے 11 سال میں کراچی کے ساتھ کیا ہوا۔ کراچی کو ریسکیو کرنے کے لیے 11 بلین ڈالرز کی ضرورت ہے۔ 11 سال میں کراچی میں جو پیسے لگنے تھے بتایا جائے وہ کہاں گئے۔
انہوں نے کہا کہ اندرون سندھ کا حال دیکھ لیں، کراچی کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت کسی بھی صوبائی حکومت کو ایگزیکٹو آرڈر جاری کرسکتی ہے۔
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ کراچی میں آئین کے آرٹیکل 149 (4) کے نفاذ کی تجویز پیش کی اور کہا کہ اس کے تحت وفاقی حکومت کراچی کے لیے احکامات جاری کرسکتی ہے ۔ فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ گورنر راج اور ایمرجنسی لگائے بغیر اس آرٹیکل سے انتظامی امور چلائے جاسکتے ہیں یہ غیر آئینی اور غیر جمہوری نہیں۔فروغ نسیم نے آرٹیکل 149 کی نفاذ تجویز پیش کرتے ہوئے واضح کیا کہ وزیر اعظم کے ساتھ سندھ اسمبلی تحلیل کرنے یا گورنر راج کی بات نہیں ہو رہی۔
وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ وزیر اعظم کی کراچی کمیٹی غور کے بعد تجویز وزیر اعظم کو بھیج سکتی ہے معلوم نہیں وفاقی حکومت یہ تجویز مانے گی یا نہیں ۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ میرا ذاتی مؤقف ہے، تمام تجزیہ کراچی کمیٹی کے سامنے رکھوں گا تاہم کراچی کے انتظامی امور سے متعلق کوئی بھی فیصلہ کمیٹی کرے گی۔وزیر قانون کا کہنا تھا کہ کراچی میں 11 برسوں میں صرف کچرا اور پانی کے مسائل نے جنم لیا ہے جس کے حل کے لیے تحریک انصاف اور ایم کیو ایم ایک پیج پر ہیں۔
سندھ حکومت کا ردعمل
دوسری جانب وزیر اطلاعات سندھ سعید غنی نے فروغ نسیم کی تجویز پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 149 میں ایسا کوئی اختیار نہیں کہ وفاق صوبائی حکومت سےکنٹرول لے۔سعید غنی نے وفاقی وزیر قانون کی تجویز پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت کو وفاق کےماتحت لانےکو کچھ نہ ملا تو یہ آرٹیکل 149 نکال کرلےآئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ انہیں سندھ حکومت 1 سال سےکھٹک رہی ہے ان کو صوبائی حکومت برداشت نہیں جب کہ پنجاب میں امن و امان کی صورتحال زیادہ خراب ہے وہاں 149 کا نفا ذیادہ بہتر ہے۔وزیر اطلاعات سندھ سعید غنی نے کہا کہ وفاقی حکومت صوبائی حکومت کو ہدایات دے سکتی ہے لیکن سندھ کےلوگ بھی اس ملک کا حصہ ہیں ان کا مینڈیٹ تسلیم کیا جانا چاہیے۔
وزیر اطلاعات سندھ نے کہا کہ امن وامان کی صورتحال یا معیشت کونقصان ہونےکی صورت میں آرٹیکل 149کام میں لایا جاسکتا ہے لہذا کچرا، سیوریج، اس طرح کے دیگر مسائل آرٹیکل 149 کے زمرے میں نہیں آتے۔
آرٹیکل 149 فور ہے کیا۔۔؟؟
1973ء کے آئین پاکستان کے آرٹیکل 149 کے مطابق وفاقی منتظمہ کسی وفاقی قانون پر عمل درآمد کے لئے صوبوں کو ہدایات دے سکتی ہے۔ جس کا تعلق متوازی آئینی فہرست میں موجود مخصوص معاملے سے ہو۔ بعض صورتوں میں صوبوں کے لئے ہدایات ہیں,جس کے تحت۔۔۔۔
(A) ہر صوبے کا عاملانہ اختیار اس طرح استعمال کیاجائے گا کہ وہ وفاق کے عاملانہ اختیار میں حائل نہ ہو یا اسے نقصان نہ پہنچائے اور وفاق کا عاملانہ اختیار کسی صوبے کو ایسی ہدایات دینے پر وسعت پذیر ہوگا جو اس مقصد کے لئے وفاقی حکومت کو ضرور معلوم ہوں۔
(B) وفاق کا عاملانہ اختیار کسی صوبے کو، اس صوبے میں کسی ایسے وفاقی قانون پر عمل درآمد کرانے کی ہدایت دینے پر بھی وسعت پذیر ہوگا جس کا تعلق مشترکہ قانون سازی کی فہرست میں مصرحہ کسی معاملے سے ہو اور جس میں ایسی ہدایات دینے کا اختیار دیا گیا ہو۔
(C) وفاق کا عاملانہ اختیار کسی صوبے کوا یسے ذرائع مواصلات کی تعمیر اور نگہداشت کے لئے ہدایات دینے پر بھی وسعت پذیر ہوگا جنہیں ہدایت میں قومی یا فوجی اہمیت کا حامل قرار دیا گیا ہو۔ (D) وفاق کا عاملانہ اختیار کسی صوبے کو ایسے طریقے کی بابت ہدایت دینے پر بھی وسعت پذیر ہوگا، جس میں اس کے عاملانہ اختیار کو پاکستان یا اس کے کسی حصے کے امن یا سکون یا اقتصادی زندگی کے لئے کسی سنگین خطرے کے انسداد کی غرض سے استعمال کیا جانا ہو۔
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کا یہ بھی کہنا تھا کہ دیکھنا ہوگا کہ آئین کا آرٹیکل 140 اے کہیں سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2013 سے متصادم تو نہیں۔۔۔؟؟
حقیقت کیا ہے۔۔؟؟
اگر اصولی طور پر دیکھا جائے تو یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2013 اور اس کی دیگر ترامیم و اضافے کے ذریعے سندھ میں بلدیاتی حکومتوں کو مفلوج کررکھا ہے ان کے پااس کوئی اختیارات نہیں اور تقریباً تمام اختیارات صوبائی حکومت کے پاس منتقل ہوچکے ہیں ایسی صورت میں سندھ کے شہری و دیہی علاقے تباہی کی جانب گامزن ہیں، اسی طرح ترقیاتی منصوبوں کے ناام پر اربوں روپے کہاں خرچ کیئے جارہے ہیں کسی کو کچھ نہیں پتہ، لیکن صورتحال یہ ہے کہ سندھ کے شہری اور دیہی عوام اس کا خمیازہ بھگتنے پر مجبور ہیں، سہولیات تو دور کی بات بنیادی حقوق کی مسلسل خلاف وزری ہورہی ہے لیکن اس جانب سندھ حکومت کی کوئی توجہ نہیں ہے اور معاملات کو سیاسی رنگ دے کر اس نہج تک لایا گیاا ہے جہاں ہر طرف کراچی کے کچرے اور کراچی کے مسائل پر بات ہورہی ہے لیکن حل کوئی نہیں دیتا۔
حل کیا ہے۔۔؟؟
اگرچہ وفاقی وزیر قانون نے صرف آرٹیکل 149 فور کے نفاذ کی ابھی تجویز ہی دی ہے لیکن اس کے خلاف سوشل میڈیا اور دیگر فورمز پر ایک نام نہاد محاذ کھڑا کردیا گیا ہے کئی ناعاقبت اندیش افراد اس آرٹیکل کو سندھ کی تقسیم سے تعبیر کررہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سندھ حکومت نے صوبے کے ساتھ جو زیادتیاں کی ہیں اس کے نتیجے میں تو سندھ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے لیکن اس حوالے سے کہیں سے کوئی آواز بلند نہیں ہوئی، ایسی صورت میں ہونا تو یہ چااہیئے تھا کہ سندھ حکومت فوری آگے آکے صرف 2 چار ارب روپے خرچ کرکے اپنے ہی زیر انتظام ملک کے معاشی دارالحکومت کراچی کو بچا سکتی تھی لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ معمالات صرف بیانات تک محدود ہیں، اب بھی حل یہی ہے کہ یاا تو سندھ حکومت فوری طور پر بلدیاتی حکومتوں کو اختیارات منتقل کرتے ہوئے مطلوبہ فنڈز فراہم کرے تاکہ مسائل حل ہوسکیں اور اس آرٹیکل کی بات از خود ختم ہوجائے بصورت دیگر آرٹیکل 149 کا نفاذ کوئی بری بات نہیں اور اس سے سندھ کی تقسیم نہیں بلکہ سندھ کی مضبوطی ہی ہونی ہے کیونکہ کراچی مضبوط ہوگا تو سندھ مضبوط ہوگا۔