برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں تیل کی سب سے اہم تنصیبات پر ڈرامائی حملے کے بعد الفاظ کی متوقع جنگ جاری ہے۔ ان حملوں نے یہ بھی دکھا دیا ہے کہ عالمی معیشت میں مرکزی اہمیت کی حامل تیل تنصیبات کتنی آسانی سے نشانہ بن سکتی ہیں۔ حوثی کہتے ہیں یہ انھوں نے کیا، امریکہ کا اصرار ہے کہ اس کے پیچھے ایران ہے اور ایران اس حملے میں ملوث ہونے کی تردید کرتا ہے۔
سعودی عرب کی یمن میں فضائی مہم کو امریکہ کی حمایت حاصل ہے ایک طویل عرصے سے حوثی جنگجووں کے خلاف فضائی مہم چلا رہا ہے لیکن اس کے مخالفین نے اب ان کو حکمت عملی کی بنیاد پر جواب دینے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔اس سارے معاملے نے اس بحث کو دوبارہ تازہ کر دیا ہے کہ ایران کس حد حوثی باغیوں کو ٹیکنالوجی اور مدد فراہم کر رہا ہے۔ خلیج فارس کے پہلے سے گرما گرم ماحول میں اس نئے واقعے نے علاقائی تناؤ کو مزید بڑھا دیا ہے۔لیکن اس سے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے تہران پر ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ کی اعلان شدہ پالیسی کی کچھ ناکامیاں بھی ظاہر ہو گئی ہیں۔
دعوؤں اور جوابی دعوؤں کے بیج ابھی بھی ایک اچھی ڈیل موجود ہے جس کے بارے میں ہم نہیں جانتے ہیں۔ حوثی اس سے قبل بھی سعودی اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے ڈرون اور میزائل استعمال کر چکے ہیں لیکن ڈرون حملوں کو عام طور پرمحدود کامیابی ہی ملی ہےتاہم حالیہ حملوں کی نوعیت اور جس درستگی کے ساتھ یہ کیے گئے ہیں، ان کو مکمل طور پر مختلف بناتے ہیں۔
تو کیا یہ واقعی مسلح ڈرون تھے جن سے یہ حملے کیے گئے یا یہ کوئی میزائل حملہ تھا؟ اور اگر یہ کوئی میزائل حملہ تھا تو سعودی فضائی دفاع الرٹ کیوں نہیں تھا؟ کیا حملے حوثیوں کے زیر انتظام علاقے سے کیے گئے یا کہیں اور سے؟؟
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے تہران پر الزام لگانے میں جلد بازی کی، انھوں نے کوئی واضح انٹیلیجنس ثبوت دستیاب ہونے سے پہلے ایسا کیا، انھوں نے یقینی طور پر عوامی جانچ پڑتال کے لیے کچھ بھی پیش نہیں کیاہے۔
ایران کے حوثیوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ حوثیوں کے طویل فاصلے تک مار کرنے کی صلاحیت حاصل کرنے میں ایران نے اہم کردار ادا کیا ہے، چاہے وہ مسلح یو اے وی سے ہو یا میزائلوں کے ذریعے۔
سنہ 2018 میں اقوام متحدہ کے ماہرین کی ایک رپورٹ میں حوثیوں کے قسیف ون ڈرون اور ایران کے ابابیل ٹی میں مماثلت کی جانب اشارہ کیا گیا۔ ایک وسیع مطالعے میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ایران نے اسلحے کی پابندی کو توڑتے ہوئے حوثیوں کو مختلف قسم کے ہتھیاروں کے نظام فراہم کیے ہیں۔ سنہ 2017 میں خود مختار ادارے کنفلکٹ آرمامنٹ ریسرچ آرگنائزیشن کے ایک مطالعے سے بھی ایران کی یو اے وی معاونت کا نتیجہ سامنے آیا۔
قسیف ون اور ابابیل ٹی صرف 100 سے 150 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یمن کی سرحد سے سب سے قریب ترین ٹارگٹ خریص آئل فیلڈ ہے جو کہ تقریبا 770 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ تو اگر یہ حالیہ حملے یو اے وی کی مدد سے کیے گئے ہیں تو ان کا ڈیزائن یقیناً مختلف ہو گا، جن میں زیادہ فاصلہ طے کرنے کی صلاحیت ہو گی۔
ایران اور ممکنہ طور پر حوثیوں کے پاس زیادہ فاصلہ طے کرنے والے سسٹم موجود ہیں لیکن یمن تنازعے میں ان تعیناتی کے بارے میں ثبوت ابھی بہت کم ہیں۔ کسی قسم کے کروز میزائل کے امکانات بھی موجود ہیں، جن کو عراق یا ایران سے فائر کیا گیا ہو گا لیکن ان سوالات پر واضح طور پر قابل اعتماد انٹیلیجنس معلومات تک رسائی کی ضرورت ہوگی۔
اگرچہ کچھ طریقوں سے بالکل درست معلومات سے فرق نہی پڑتا۔ سفارتی سطح پر نقصان پہلے ہی ہو چکا ہے۔ امریکہ اور سعودیہ ایران کے بڑے دشمن ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ خلیج فارس میں جہازوں کو پہنچنے ولے نقصان کا الزام تہران پر عائد کر چکی ہے۔ جبرالٹر سے ایرانی تیل لے کر جانے والے ایک جہاز کی حراست کے بعد، ایران کھلے عام برطانوی پرچم والے ایک جہاز کو تحویل میں لے چکا ہے۔جہاں تک ٹیم ٹرمپ کا تعلق ہے تو وہ سعودی تیل کے انفراسٹرکچر کے خلاف حوثیوں کی سٹریٹجک مہم میں تیزی کا ذمہ دار ایران کو ٹھہراتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اب وہ اس سلسلے میں کیا کریں گے یا شاید وہ اس بارے میں کیا کر سکتے ہیں؟ اور جواب ہے: زیادہ کچھ نہیں۔ کیپیٹل ہل میں یمن جنگ کی غیر مقبولیت کے باوجود امریکہ سعودی عرب کی جانب ہے، جہاں یہ خیال بڑھ رہا ہے کہ سعودی فضائی مہم بیکار ہے، جس سے پہلے سے ہی ایک غریب ملک کو انسانی تباہی کے علاقے میں تبدیل کرنے میں مدد مل رہی ہے۔
یہ خطرہ اب بھی باقی ہے کہ غلط حساب کتاب کی بدولت ایک ایسا تنازع پیدا ہو سکتا ہے جو واقعی کوئی نہیں چاہتا ہے۔ اسلیئے ضروری ہے کہ امریکہ کو کسی بھی ردعمل سے قبل بہت سوچ و بچار کرنے کی ضرورت ہوگی کیونکہ اس کی معاشی حالت کسی نئی جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی، عراق اور افغانستان میں ناکامیوں کے بعد تو اسے مزید احتیاط کی ضرورت ہے، اس لیئے سعودی آئل فیلڈز حملے پر زیادہ جارحانہ ردعمل اگرچہ فریقین کیلئے نقصان دہ ہوگا لیکن ا سمیں زیادہ نقصان امریکہ اور اس کے مفادات کو ہی ہے۔