گھوٹکی میں ایک ہندو استاد پر توہینِ رسالت کا الزام عائد کیے جانے کے بعد مشتعل ہجوم کی جانب سے مندر کی بےحرمتی اور ہندو برادری کی دکانوں میں لوٹ مار کے الزامات پر درجنوں افراد کے خلاف مقدمات درج کر لیے گئے ہیں،نوتن مل نامی استاد پر ان کے ایک شاگرد نے ہفتے کو پیغمبر اسلام کی توہین کا الزام عائد کیا تھا جس کے بعد گھوٹکی شہر میں ہنگامہ آرائی کے دوران مشتعل افراد نے مقامی سائیں سادرام داس مندر میں توڑ پھوڑ کی تھی جبکہ شاہی بازار میں ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی دکانوں کو لوٹا گیا تھا۔ گھوٹکی شہر میں ہندو آبادی کا تناسب 30 فیصد ہے جبکہ پورے ضلع میں ہندو آبادی 20 سے 25 فیصد بتائی جاتی ہے۔
سندھ پولیس کےایڈیشنل آئی جی ڈاکٹر جمیل احمد کے مطابق ہنگامہ آرائی کرنے والے افراد کے خلاف توہینِ مذہب، نقصِ امن عامہ اور توڑ پھوڑ کے الزامات کے تحت تین مقدمات درج کیے گئے ہیں،ان کا کہنا تھا کہ پہلا مقدمہ دفعہ 295 کے تحت مندر کو نقصان پہنچانے کےالزام میں درج کیا گیا ہے جس میں 22 افراد کو نامزد کیا گیا ہے جبکہ 23 نامعلوم ملزمان ہیں۔ان کے مطابق اس کے علاوہ شاہی بازار میں ہندوبرادری کی دکانوں میں توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کرنے پر بھی 12 نامزد اور 11 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ 28 افراد کو سڑک پر رکاوٹیں کھڑی کرنے اور راستہ روکنے کے مقدمے میں نامزد کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر جمیل کے مطابق نامزد افراد کو واقعے کے ویڈیو کلپس اور عینی شاہدین کی جانب سے شناخت کیے جانے کی بنیاد پر مقدمے میں شامل کیا گیا ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہندو استاد کے سکول کی انتظامیہ سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ سکول میں توڑپھوڑ کے حوالے سے مقدمہ درج کروا سکتے ہیں اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ مقدمہ بھی ریاست کی مدعیت میں درج کیا جائے گا۔
پولیس نے مذکورہ استاد نوتن مل جو کہ ایک ریٹائرڈ پروفیسر ہیں، کے خلاف بھی توہینِ رسالت کی دفعہ 295 سی کے تحت مقدمہ درج کیا ہے تاہم حکام کا کہنا ہے کہ ابھی اس معاملے کی ابتدائی تفتیش ہو رہی ہے جس کے بعد ہی اس بارے میں مزید کارروائی ہو گی۔ ملزم نوتن مل پولس کی حفاظتی تحویل میں ہیں۔ پولیس ابھی اس مقدمے میں ابتدائی تحقیقات مکمل کرے گی اسی کی روشنی میں نوتن مل کو عدالت میں پیش کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔
نوتن مل پر الزام لگانے والے طالبعلم سے بھی بات کی ہے جس نے سوشل میڈیا پر اپنے حوالے سے گردش کرنے والی پوسٹ کو بےبنیاد قرار دتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے نام سے جعلی آکاوئنٹ بنا یا گیا ہے۔طالب علم کے والد عبدالعزیز راجپوت کے مطابق ان کا بیٹا اپنے بیان پر قائم ہے۔
اس واقعے پر مذہبی جماعتوں نے اپیل پر ضلع بھر میں ہڑتال کے بعد پیر کو حالات معمول پرآ گئے ۔ تاہم گھوٹکی شہر میں حالات کشیدہ ہونے کے بعد ضلعی انتظامیہ نے رینجرز کو طلب کیا تھا جوشہر میں گشت کر رہی ہے جبکہ متعدد صوبائی وزراء بھی ہندو برادری سے اظہار یکجہتی کیلئے گھوٹکی پہنچے تھے
پیپلز پارٹی کے رہنما اور سندھ کے وزیر اطلاعات و محنت سعید غنی ، وزیر بلدیا ناصر شاہ سمیت دیگر عہدیداران نے اتوار کی شب گھوٹکی میں توڑ پھوڑ کا نشانہ بننے والے مندر کا دورہ کیا تھا اور ہندو برادری کے رہنماؤں کو یقین دلایا گیا ہےمندر کی بے حرمتی کرنے والوں کے خلاف مقدمہ درج ہوگا۔انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ علمائے کرام نے تمام شرپسندوں سے لاتعلقی کا اعلان کیا اور سندھ میں بدامنی پھیلانے کی سازش کی پرزور مذمت کی ہے۔سعید غنی کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت سندھ تمام نقصانات کا ازالہ کرے گی۔