پاکستانی فوج کے سابق افسرکرنل (ر) حبیب ظاہر کا نام بدھ کی شام سے ایک مرتبہ پھر میڈیا کی شہ سرخیوں میں اس وقت آیا جب پاکستان کے دفترِ خارجہ نے ایک بیان میں ان کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ان کی گمشدگی کی تفصیلات بتائیں۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق دفترِ خارجہ نے کہا کہ یہ سوال انڈین میڈیا میں کرنل حبیب کے معاملے کو مبینہ انڈین جاسوس کلبھوشن جادھو سے جوڑے جانےکے تناظر میں پوچھا گیا تاہم دلچسپ امر یہ ہے کہ دفترِ خارجہ نے دونوں معاملات کو ایک دوسرے سے منسلک کیے جانے کی نہ تو تردید کی اور نہ ہی تصدیق۔
پاکستانی حکام نے بیان میں نہ تو انڈین میڈیا کے ان ذرائع کی نشاندہی کی جو کرنل (ر) حبیب ظاہر کی گمشدگی کے ڈھائی برس بعد ایک بار پھ ان کا تعلق کلبھوشن جادھو کے معاملے سے جوڑ رہے ہیں اور نہ ہی یہ واضح کیا کہ یہ سوال کس جانب سے کیا گیا تھا۔
آٹھ اپریل سنہ 2017 کو پاکستان کے دفتر خارجہ نے پہلی بار سابق لیفٹینٹ کرنل حبیب ظاہر کی نیپال میں لاپتہ ہونے کی تصدیق کی تھی جبکہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے نیپالی حکومت کے ساتھ رابطہ کیا گیا تھا،پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل نے سنہ 2017 میں لاپتہ ہونے والے فوج کے سابق لیفٹیننٹ کرنل حبیب ظاہر کی گمشدگی کی تفصیلات جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ نیپال میں لاپتہ ہوئے تھے، جہاں وہ اپریل 2017 میں ملازمت کے انٹرویو کے لیے گیے تھے۔
ترجمان پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ ان کہ اہلخانہ کے مطابق فوج کے سابق کرنل حبیب ظاہر نے نوکری کی تلاش کے سلسلے میں ویب سائٹ لنکڈان اور اقوام متحدہ کے ویب سائٹ پراپنا سی وی پوسٹ کیا تھا۔ جس کے جواب میں انھیں ایک مارک تھامسن نامی شخص کی جانب سے ای میل اور ٹیلی فون کال موصول ہوئی تھی جس میں کہا گیا کہ انھیں نائب صدر کے عہدے کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔
سابق کرنل حبیب ظاہر سے 6 اپریل کو نوکری کے انٹرویو کے لیے نیپال کےشہرکھٹمنڈو آنے کا کہا گیا جس کے لیےانھیں لاہورسے کھٹمنڈو بذریعہ عمان ہوائی جہاز کا ٹکٹ بھی بھیجا گیا تھا۔ترجمان دفتر خارجہ نے بتایا کہ ان کے اہلخانہ کے مطابق کرنل محمد حبیب ظاہر پہلی مرتبہ نیپال کا دورہ کر رہے تھے اور انھوں نیپال کے شہر کھٹمنڈو پہنچنے کے بعد اپنے اہلخانہ کو اپنی اور نیپال کے شہر لمبینی کے لیے ہوائی ٹکٹ کی تصاویر واٹس ایپ کی تھیں۔
پاکستانی دفترخارجہ کا کہنا ہےکہ ان کےاہلخانہ کےمطابق چھ اپریل سنہ 2017 میں انھوں نے دوپہر ایک بجے اپنے موبائل فون سے اپنی اہلیہ کو بحفاظت لمبینی پہنچنے کا پیغام بھیجا تھا۔ جس کے بعد سے ان کا موبائل بند ہوگیا اور ان کا اہلخانہ سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا،لمبنی نیپال اور انڈیا کی سرحد کے قریب واقع ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان سب سے بڑی سرحدی چوکی ہے۔اس سرحدی چوکی سے بڑی تعداد میں انڈین اور نیپالی شہری ہر روز ایک دوسرے کے ہاں آتے جاتے ہیں۔لمبینی شہر کا بھیروا ہوائی اڈہ سرحدی چوکی سے محض چند کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ کرنل حبیب آخری بار اسی ہوائی اڈے کے باہر دیکھے گئے تھے۔
کرنل حبیب کی گمشدگی کے حوالے سے پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق اب تک کی تحقیقات سے یہ انکشاف ہوا ہےکہ مارک نامی شخص کا برطانیہ کا موبائل فون نمبر جعلی تھا اور درحقیقت وہ انٹرنیٹ یا کمپیوٹر کی مدد سے تخلیق کیا ہوا نمبر تھا۔تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے جس ویب سائٹ سے سابق لیفٹینٹ کرنل حبیب ظاہر سے رابطہ کیا گیا تھا اس کے بارے میں علم ہوا ہےکہ وہ انڈیاسےچلائی گئی تھی اوربعد میں اسےانٹرنیٹ سے ہٹا لیا گیا تھا۔
نیپال کی حکومت نے ان کی گمشدگی کی تحقیق کرنے کے لیے ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی تھی لیکن ابھی تک اس معاملے میں کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی ہے جبکہ پاکستانی اداروں کی جانب سے سابق فوجی افسر حبیب ظاہر کی ای میلز پر کی گئی ابتدائی تحقیقات کے مطابق انھیں مارچ میں ‘سٹارٹ سولوشنز’ نامی ویب سائٹ سے ایک ریکروٹر مارک تھامسن نے ای میل کے ذریعے ساڑھے تین ہزار سے ساڑھے آٹھ ہزار ڈالر کی تنخواہ پر نائب صدر/ زونل ڈائریکٹر (سکیورٹی) کی پیشکش کی تھی۔
انھیں ملازمت کنفرم کرنے کے لیے کھٹمنڈو آنے کو کہا گیا اور عمان ایئرلائن کی بزنس کلاس کی ٹکٹ بھی بھجوائی گئی تھی۔دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ کرنل حبیب کی نیپال کے سرحدی شہر لمبینی میں گمشدگی جو انڈیا کی سرحد سے محض پانچ کلومیٹر دور ہےاورانڈین شہریوں کے اس میں ملوث ہونے کے پیش نظر پاکستان نے متعدد بار انڈیا کی حکومت سے بھی ان کو ڈھونڈنے کے لیے مدد کی درخواست کی ہے۔
دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ ان کی گمشدگی کی اطلاعات کے مطابق انڈین شہریوں نے کرنل حبیب کا لمبینی میں استقبال کیا تھا،ان کے ہوٹل میں قیام کےانتظامات کیے اور ٹکٹ بک کروائے تھے،تاہم، انڈیا کی طرف سے کوئی مثبت جواب موصول نہیں ہوا ہے۔’ان کےاہلخانہ بہت تکلیف میں ہیں اور انھوں نے جنیوا میں اقوام متحدہ کے جبری گمشدگیوں کے حوالے سے کام کرنے والے ورکنگ گروپ سے بھی ان کا پتہ لگانے میں مدد کے لیے بھی رابطہ کیا۔‘