سعودی عرب کی آئل تنصیبات پر حملوں کے بعد یہ سوال بدستور گردش کررہا ہے کہ اس حملوں کا اصل فائدہ کس کو ہوا ہے، کیا یمن کو ہوا جس نے سعودی اتحاد کی کاررواءیوں کا بدلہ لینے کا دعویٰ کیا، یا ایران کو ہوا جو پہلے ہی پابندیوں کا شکار اور قیامِ امن کی کوششوں میں مصروف ہے یا امریکہ کو ہوا جس کی آئل سپلائی سمیت اسلحہ کی فروخت میں اضافہ ہوا اور اب امریکا نے اپنےفوجی دستے سعودی عرب اور یو اے ای بھیجنے کا اعلان بھی کردیا ہے۔۔ یہ سوالات اپنی جگہ لیکن مبصرین وائٹ ہاوس اور امریکی وزارت دفاع کی اس بات پر حیران ہیں جس کے تحت کہا گیا ہے کہ سعودی عرب میں آئل تنصیبات پر حملوں کے بعد ایران سے کشیدگی میں اضافے اور خطے کی صورتحال کے تناظر میں ڈونلڈ ٹرمپ نے فوج بھیجنے کی منظوری دی ہے۔
غیر ملکی خبررساں ادارے کےمطابق پینٹاگون کا کہنا ہےکہ امریکی فوج کی اضافی تعیناتی دفاعی نوعیت کی ہے،سعودی تیل تنصیبات کی نگرانی کے لیے میزائل ڈیفنس سسٹم نصب کررہے ہیں امریکی وزیردفاع مارک اسپر کا کہنا ہے کہ عالمی معیشت، اصولوں اوراقدارکو ایران سے خطرات لاحق ہیں، خطے میں ایران کی پرتشدد سرگرمیوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے،جس کے بعد سعودی عرب نےاہم انفراسٹرکچر کے تحفظ کیلئےعالمی مدد کی درخواست کی ہے۔
انہوں نےکہا کہ اضافی تعیناتی فضائی اورمیزائل دفاعی نظام پرمرکوز ہوگی، سعودی عرب اور یواےای کی درخواست پراضافی کمک کی منظوری دی گئی ہے،تعیناتی سے واضح پیغام دینا ہے کہ امریکا اتحادیوں کی حمایت کرتا ہے، وزیردفاع کا کہنا تھا کہ اس اقدام کا مقصد عالمی معیشت کیلئے درکار وسائل کی آزادانہ ترسیل یقینی بنانا ہے، سعودی عرب کو عسکری آلات کی فراہمی میں تیزی لارہے ہیں، خطے میں اپنے شہریوں اور مفادات کا تحفظ امریکا کی ذمہ داری ہے، ایرانی قیادت اپنی تباہ کن، خطےکو غیر مستحکم کرنے کی سرگرمیاں روکے۔
مارک ٹی اسپر نے خبردار کیا کہ ایران پُرامن سفارتی راستے کا انتخاب کرے، عالمی معیشت، اصولوں کے تحفظ کی ذمہ داری اقوام عالم پر ہے، ایران کو طویل عرصے سے عالمی قوانین کی پاسداری کا کہہ رہے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹرمپ واضح کرچکے ہیں کہ امریکا ایران سے تصادم نہیں چاہتا، ضرورت پڑی تو امریکا کے پاس دیگر عسکری آپشنز بھی موجود ہیں۔
سعودی عرب میں امریکہ کی موجودگی سنہ 1991 میں آپریشن ڈیزرٹ سٹارم کے تحت اس وقت شروع ہوئی تھی جب عراق نے کویت پر حملہ کر دیا تھا۔جولائی 2019 میں بھی امریکہ کے 500 فوجیوں کو سعودی عرب کے شہزادہ سلطان کے فوجی اڈے پر فضائی دفاع کے لیے پیٹریٹ میزائل تعینات کرنے کیلئے بھیجا گیا تھا اس وقت امریکہ کے منصوبے میں ایف-22 فائٹر طیارے شامل تھے جو کہ ریڈار کی زد میں آئے بغیر اپنے کام کر سکتے ہیں۔امریکہ کی سینٹرل کمانڈ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ‘فوج کی تعیناتی کا مقصد حفاظتی انتظامات کو مزید بہتر کرنا ہے تاکہ خطے میں سامنے آنے والے نئے معتبر خطرات سے ہمارے فوجیوں اور ہمارے مفادات کا دفاع یقینی بنایا جا سکے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب پر حملے اور ان کی نوعیت تاحال معمہ ہے باوجود اس کے کہ امریکہ اور سعودی عرب حملوں کا سارا ملبہ ایران پر ڈال رہے ہیں لیکن ایسا لگتا نہیں کہ موجودہ حالات کے تناظر میں ایران کوئی ایسا عمل کرنے کی غلطی کرسکتا ہے جبکہ حملوں کا براہ راست فائدہ صرف امریکہ اور امریکی آئل کمپنیوں کو ہوا ہے کہ ایک جانب آرامکو آئل کمپنی کے شیئرز کی قیمتیں کم ہوئیں جسے امریکہ سرمایہ کاروں نے خریدا تو دوسری جانب تیل کی سپلائی کم ہونے سے امریکی آئل سپلائی میں اضافے سے اربوں ڈالرز کمائے گئے اور اب دفاع کے نام پر سعودی عرب و امارات میں امریکی فوجیوں کی تعیناتی اور اسلحے کی فروخت امریکی مفادات میں ایک اور سنگ میل بننے جارہا ہے ایسے میں ایران پر الزامات ایک مذاق سے زیادہ کچھ نہیں، ساتھ ہی عالمی برادری کو اس معمے کے حل کی بھی ضرورت ہے کہ آئل تنصیبات پر حملوں سے فائدہ کس کو ہوا۔۔؟؟