یمن کے حوثی جنگجووں نے سعودی عرب کے ساتھ جاری کشیدگی کے خاتمے کے لیے جنگ بندی کی پیشکش کر دی ہےسعودی عرب اور یمن کے درمیان 2015 سے جاری کشیدگی میں اب تک 10 ہزار سے زائد افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں جبکہ لاکھوں فاقہ کشی پر مجبور ہوئے ہیں جس کی وجہ سے دنیا کے بدترین انسانی المیے نے جنم لیا ہے۔ 14 ستمبر کو سعودی آئل تنصیبات پر حملے کے بعد سے سعودی عرب اور یمن کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
سعودی عرب کی سرکاری آئل ریفائنری پر حملے کی ذمہ داری حوثی جنگجووں نے قبول کی تھی تاہم امریکا اور سعودی عرب نے اس حملے کا ذمہ دار ایران کو قرار دیا ۔سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے ملک کا دفاع کرنا آتا ہے جب کہ ایران نے خبردار کیا ہے کہ اگر امریکا یا سعودی عرب نے حملے کی کوشش کی تو پھر ایک بھرپوراورمکمل جنگ ہو گی، اور اسی ملک کو میدان جنگ بنایا جائے گا جو حملہ کرے گا۔
اب حوثی جنگجووں کی سپریم پولیٹیکل کونسل کے رہنما مہدی المشحط کی جانب سے ایک بیان سامنے آیا ہے۔ اپنے ایک ٹی وی بیان میں انھوں نےکہا کہ اگر دوسری جانب سے حملے بند ہو جائیں تو ہم بھی سعودی عرب پر حملے بند کر دیں گے۔ ورنہ یہ جنگ اتنی دور تک جائے گی جس کا کوئی تصور نہیں کرسکتا۔
سربراہ مہدی المشعت نے اپنی تقرير ميں کہا کہ وہ اميد کرتے ہيں کہ ان کے اس اقدام کے رد عمل سے کشيدگی ميں کمی آئے گی۔ المشعت کی تقرير يمن پر حوثی باغيوں کی چڑھائی کے پانچ برس مکمل ہونے کے موقع پر جمعے کو المصيرہ ٹيلی وژن پر نشر کی گئی۔ باغيوں کی سياسی کونسل کے سربراہ نے تقرير ميں مزيد کہا، ’’جنگ کسی کے مفاد ميں نہيں۔‘‘ المشعت کے مطابق حملے بند کرنے کا مقصد يمن ميں قيام امن ہے۔ ان کے بقول قومی سطح پر مصالحت فريقين کے درمیان مذاکرات سے ممکن ہے۔ المشعت نے يہ بھی کہا کہ اس اقدام کی ايک اور وجہ يمنی شہريوں کی جانيں بچانا ہے۔
اُدھر اقوام متحدہ نے حوثیوں کی اس پیشکش کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سعودی عرب اور یمن کے درمیان امن کا ایک قدم ہے۔اقوام متحدہ نے یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثیوں کی جانب سے ایک امن پلان کے تحت سعودی عرب پر تمام حملوں کے خاتمے کی تجویز کا خیر مقدم کیا ہے۔اقوام متحدہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس تجویز سے ’جنگ کے خاتمے کی خواہش کا طاقتور پیغام‘ بھیجا جاسکتا ہے۔