ایران نے فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے لیڈروں کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک حالیے بیان کو رد کرتے ہوئے ان ممالک پر الزام لگایا ہے کہ وہ ’بغیر سوچے سمجھے امریکہ کے بےبنیاد دعووں کو دہرا رہے ہیں۔‘یورپی ممالک کے لیڈروں نے کہا تھا کہ سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری کسی اور پر نہیں عائد کی جا سکتی۔ ان حملوں سے سعودی عرب کی تیل کی نصف پیداوار متاثر ہوئی تھی۔تاہم تینوں ممالک نے کہا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ 2015 میں طے پانے والے جوہری معاہدے کی حمایت جاری رکھیں گے۔
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن، فرانسیسی صدر ایمانویل میخوان اور جرمنی کی چانسلر آنگیلا میرکل نے نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ایک اجتماعی بیان جاری کیا تھا۔بیان میں کہا گیا تھا کہ: ’ہمارے لیے یہ بات واضح ہے کہ اس حملے کی ذمہ داری ایران پرہے۔ اس معاملے میں کوئی اورصورت نظر نہیں آ رہی۔ ہم مزید جاننے کے لیے کی جانے والی تحقیقات کی حمایت کرتے ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ: وقت آ گیا ہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کے لانگ ٹرم فریم ورک، اپنے میزائل پروگرام اور خطے میں امن کے قیام کے لیے مذاکرات کو تسلیم کرے،پیر کو دیے گئے ایک اوربیان میں برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے ایران کے ساتھ ایک نئے جوہری معاہدے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ صدر ٹرمپ کو یہ معاہدہ خود طے کرنا چاہیے۔انھوں نے امریکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: اگر یہ ایک گھاٹے کا سودا تھا، اور میں یہ تسلیم کرنے کو تیار ہوں کہ اس میں کئی خامیاں تھیں، تو پھر کیوں نہ ہم ایک بہتر معاہدہ کر لیں؟‘
بورس جانسن کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں صرف ایک ہی شخص ہیں جو نہ صرف ایک بہتر معاہدہ کر سکتے ہیں بلکہ ایران جیسے سخت حریف سے نمٹنا بھی جانتے ہیں اور وہ امریکی صدر ہیں۔ سچ بتاؤں تو میرے خیال میں ٹرمپ کو ہی یہ ڈیل کرنے چاہیے۔البتہ اس بیان کے بعد برطانوی وزیراعظم کے دفتر نے وضاحت کی کہ بورس جانسن ایران کے ساتھ طے کردہ جوہری معاہدے کی حمایت کرتے ہیں۔
برطانوی وزیراعظم کے اس بیان پر اتوار کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ جانسن میں قریبی دوست اور ایک بہترین رہنما ہیں نئے معاہدے کی ان کی بات قابل عمل ہوسکتی ہے کیونکہ سابقہ جوہری معاہدہ کیوں کیا گیا مجھے اب تک اس کی سمجھ نہیں آئی ہے۔
یورپی ممالک کے اس بیان اور الزامات دہرانے پر ایرانی صدر حسن روحانی بھی فرانسیسی صدر کے ساتھ تازہ ملاقات مین اپنا احتجاج ریکارڈ کراچکے ہیں جبکہ ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے بھی کسی نئے معاہدے کے امکانات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ تینوں یورپی ممالک امریکہ کی اجازت کے بغیر ’مفلوج نظر آتے ہیں۔‘ایک ٹویٹ میں انھوں نے کہا: ’اس کمی کو پُر کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ امریکہ کے مضحکہ خیز دعووں کو دہرانے کے بجائے آزادانہ سوچ کے تحت ایک نئی راہ کا تعین کیا جائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جب تک موجودہ معاہدے پرعمل درآمد نہیں ہوتا تب تک کسی نئی ڈیل پر بات نہیں ہوگی، جواد ظریف کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایران پر آئل تنصیبات کے حوالے سے لگائے گئے بے بنیاد اور جھوٹے الزامات کو یورپی ممالک نہ دہرائیں۔
علاوہ ازیں ایرانی وزیر خارجہ نے یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی سے بھی نیویارک میں ملاقات کی جس میں جوہری معاہدے کو برقرار رکھنے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا.گیا اس ملاقات میں جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ہوئی دیگر علاقائی اور عالمی مسائل پر بھی گفت و شنید ہوئی، جبکہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی جانب سے امریکی الزامات کو دہرانے پر ایرانی وزیر خارجہ نے اپنی تشویش کاا اظہارکیا۔