اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کی غرض سے نیویارک میں سات دن قیام کے لیے وزیراعظم عمران خان نے روزویلٹ ہوٹل کا انتخاب کیا ہے۔ جو پاکستان کی قومی فضائی کمپنی پی آئی اے کی ملکیت ہے۔ پاکستانی رہنماؤں کے دوروں کے دوران ہمیشہ ہی صحافیوں کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے میڈیا سینٹر روزویلٹ ہوٹل میں بنائے جاتے رہے ہیں۔
مہنگے ترین ہوٹلوں کے انتخاب پر ماضی کے حکمرانوں کا ہمیشہ یہ مؤقف رہا کہ کیونکہ ان ہوٹلوں میں دیگر ملکوں کے سربراہان مملکت اور سربراہان حکومت قیام کرتے ہیں تو ان سے ملاقاتیں طے کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔خیال رہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی اگلے سات دنوں میں تمام اہم ملاقاتیں اسی ہوٹل میں ہونا طے ہیں۔
نیویارک کے روزویلٹ ہوٹل کے قیام کو ایک صدی ہو گئی ہے،اس کا افتتاح 23 ستمبر سنہ 1924 میں ہوا تھا۔ امریکی صدر تھیوڈر روزویلٹ کے نام پر بنائے گئے اس ہوٹل کی تعمیر پر اس وقت ایک کروڑ بیس لاکھ ڈالر رقم صرف ہوئی تھی۔ روز ویلٹ ہوٹل نیویارک کے مرکز مین ہیٹن کی 45ویں اور 46 ویں سٹریٹ کے درمیان واقع ہے جو نیویارک کے گرینڈ سنٹرل سٹیشن سے صرف ایک بلاک دور ہے۔ یہاں سے ٹائمز سکوائر اور براڈ وے جانے میں صرف پانچ منٹ لگتے ہیں۔یہ ہوٹل ایک خفیہ زیرِ زمین راستے سے نیویارک کے گرینڈ سینٹرل سٹیشن سے بھی جڑا ہوا تھا۔
روزویلٹ ہوٹل میں مجموعی طور پر ایک ہزار 25 کمرے ہیں، جن میں 52 لگثری سوئٹس اور صدارتی کمرے بھی شامل ہیں، ہوٹل میں تزئین و آرائش کیلئے مہاگنی لکڑی کا شاندار استعمال کیا گیا ہے۔ ہوٹل میں میٹنگز و نمائش کیلئے 30 ہزار اسکوائر فٹ کے ہال موجود ہیں جبکہ دو بال رومز اور 17 اضافی میٹنگز ہال اس کی افادیت کو بڑھاتے ہیں.ہوٹل میں کم از کم کرایہ 190 ڈالر سے شروع ہوتا ہے جو 7 ہزار امریکی ڈالر یومیہ تک جاتا ہے۔
روزویلٹ ہوٹل دنیا بھرمیں وہ پہلا ہوٹل تھاجس نے اپنے مہمانوں کی ضروریات کو پیش نظررکھتے ہوئے چائلڈ کیئراورپالتو جانوروں کے لیے بھی خصوصی سروس مہیا کرنا شروع کی تھی۔ اس کے علاوہ 1947 میں روزویلٹ وہ پہلا ہوٹل تھا جس نے کمروں میں ٹیلی وژن سیٹ مہیا کیے،کونریڈ ہلٹن نے 1943 میں یہ ہوٹل خرید لیا۔ کونریڈ ہلٹن بعد میں والڈورف ایسٹوریا اور دی پلازہ جیسے اعلی معیار کے ہوٹلوں کے مالک بھی بن گئے لیکن انھوں نے اپنا قیام روزویلٹ ہوٹل کے صدارتی سوئٹ میں ہی رکھا۔
سنہ 2015 میں جب نواز شریف نیویارک تشریف لے گئے تو اس انھوں نے ویلڈورف اسٹوریا کا انتخاب کیا تھا جب کہ انڈیا کےوزیر اعظم نریندر مودی اور چین کے صدر شی جن پنگ بھی اس ہوٹل میں مقیم تھے،جنوبی ایشیا کے ان دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کو اتنے مہنگے ہوٹلوں میں قیام پر امریکی صحافی اکثر حیران ہوا کرتے تھے۔سنہ 2008 میں صدر آصف علی زرداری جب نیویارک گئے تھے تو وہ روز ویلٹ ہوٹل میں ٹھہرے تھے اور ان کے قیام کے لیے ہوٹل کا صدارتی سوئٹ بک کرایا گیا جس کا ایک رات کا کرایہ چھ ہزار ڈالر یومیہ تھا۔
سنہ 1979 میں پی آئی اے نے سعودی عرب کے شہزادے فیصل بن خالد بن عبدالعزیز السعود کے ساتھ مل کر اس کو لیز پر حاصل کر لیا۔ اس لیز کی شرائط میں ایک شق یہ بھی شامل تھی کہ بیس برس بعد اگر پی آئی اے چاہے تو اس ہوٹل کی عمارت بھی خرید سکتی ہے۔ سنہ 1999 میں پی آئی اے نے اس شق کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہوٹل کی عمارت کو تین کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالر میں خرید لیا۔ پی آئی اے کو ہوٹل کی عمارت خریدنے سے پہلے ہوٹل کے اسوقت کے مالک پال ملسٹین کے ساتھ ایک طویل قانونی جنگ لڑنا پڑی۔
پال ملسٹین کا خیال تھا کہ ہوٹل کی قیمت اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس سے قبل سنہ 2005 میں پی آئی اے نے سعودی پرنس کے ساتھ ایک سودے میں روزویلٹ کے 99 فیصد شئیر خرید لیے اور سعودی شہزادے کے پاس صرف ایک فیصد شیئر ہی رہ گئے۔سنہ 2007 میں پی آئی اے نے ہوٹل کی مرمت اور از سر نو تزئین و آرائش کا کام شروع کیا جس پر چھ کروڑ پچاس لاکھ ڈالر کا خرچہ آیا۔ اس کے بعد پی آئی اے نے اپنے مالی خصاروں کو پورا کرنے کے ہوٹل کو بیچنے کے بارے میں بھی سنجیدگی سے غور کرنا شروع کیا لیکن بعد میں یہ فیصلہ ترک کر دیا گیا۔