برطانیہ کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ جلد کا ایک مہلک کینسر جسےایک دہائی قبل لاعلاج تصور کیا جاتا تھا اب اس سے متاثرہ 50 فیصد سے زیادہ افراد بچ سکتے ہیں۔دس سال قبل جلد کے اس مرض میں مبتلا 20 میں سے صرف ایک شخص ہی میلانوما کے آخری مرحلے میں تشخیص کے بعد پانچ سال تک زندہ بچتے تھے جبکہ زیادہ تر چند مہینوں میں ہلاک ہو جاتے تھے۔لیکن ایک طبی ٹرائل میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جسم کے مدافعتی نظام پر زین کسنے والی دواؤں کے استعمال سے اب 52 فیصد افراد کم از کم پانچ سال تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ علاج میں یہ انتہائی غیرمعمولی اور تیز رفتار ترقی ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق میلانوما یا جلد کی رسولی برطانیہ میں پانچواں سب سےعام کینسر ہے اور اس سے ہرسال تقریباً 2300 افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔اگر ابتدائی مرحلے میں اس کی تشخیص ہو جائے تو بچنے کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں لیکن جب یہ کینسر زیادہ جارح ہو جاتا ہے اور جسم میں پھیلنے لگتا ہے جسےمیٹاسٹیٹک کہا جاتا ہے تو بچنےکی امید انتہائی کم ہو جاتی ہے۔رائل مارسڈن این ایچ ایس فاؤنڈیشن ٹرسٹ کے کنسلٹینٹ پروفیسر جیمزلارکن نے کہا ماضی میں میٹا سٹیٹک میلانوما کو ناقابل علاج کہا جاتا تھا۔
انھوں نے کہا کہ کینسر کےعلاج کے ماہرین کے خیال میں میلانوما دوسرے قسم کے سرطانوں سے مختلف ہے اور ایک بار جب پھیلنے لگے تو اس کا علاج نہیں کیا جا سکتا ہے۔اس کی تشخیص کے بعد لوگ چھ سے نو ماہ تک ہی زندہ رہ سکتے ہیں۔
ٹرائل میں دو ایمینوتھراپی دواؤں کی تحقیق کی گئی جو کہ قوت مدافعت کے نظام کو بڑھانے کے لیے ہیں اور پھر اس کینسر کو ان پر حملہ آور ہونے دیا گیا۔ٹرائل میں 945 مریض تھے جن میں سے ایک تہائی کو نائوولوماب دیا گیا اور ایک تہائی کو ایپیلیموماب دیا گیا جبکہ ایک تہائی کو دونوں دوائیں دی گئيں۔پھر ڈاکٹروں نے پانچ سال تک جینے کی شرح پر نظر رکھی کہ کتنے مریض پانچ سال بعد بھی زندہ ہیں۔
صرف ایپیلیموماب دیے جانے والے 26 فیصد افراد پانچ سال بعد بھی زندہ تھےجنھیں صرف نیوولوماب دی گئی تھی ان میں 44 فیصد اب بھی زندہ ہیں اور جنھیں دونوں دی گئی تھیں ان میں سے 52 فیصد ابھی بھی زندہ ہیں،ماہرین اتنے کم وقت میں اس قدر ترقی کو حیرت انگيز قراردیتے ہیں کیونکہ ایسے مرض کے علاج کے متعلق یہ انتہائی غیر معمولی تبدیلی ہے جس کے بارے میں یہ خیال ظاہر کیا جاتا تھا کہ ہر قسم کے کینسروں میں اس کا علاج اور تشخیص انتہائی مشکل ہے۔ماہرین کےمطابق سٹیج چار کی تشخیص والے 50 فیصد میلانوما مریض ایمینوتھراپی کے علاج کے بعد پانچ سال بعد بھی زندہ ہیں۔ یہ دریافت یورپین سوسائٹی فار میڈیکل آنکولوجی کے ایک اجلاس میں پیش کی گئی اور اسے نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع کیا گیا ہے۔
مریض کیا کہتے ہیں؟
کینسر میں شفایاب ہونا کہنا مشکل ہوتا ہے لیکن پانچ سال زندہ رہنا اپنےآپ میں بڑا سنگ میل ہے۔بعض مریضوں میں مکمل طورپررسولی کا خاتمہ دیکھا گیا ہے اوراسکن میں معمول کے خلاف کچھ نظرنہیں آیا ہے۔ جتنے مریض بچ گئے ہیں اب ان میں سے دو تہائی کو کینسر کےمزید علاج کی ضرورت نہیں ہے۔
ایمینوتھراپی نوبل انعام یافتہ طریقۂ علاج ہے جس کے تحت لاعلاج کو قابل علاج بنایا جا رہا ہے۔یہ شعبہ کینسر کے علاج میں بہت ہی ولولہ انگیز ہے۔مدافعتی نظام ہر وقت ہمارے جسم کی نگرانی کرتا رہتا ہے اور وائرس جیسے دشمن حملہ آوروں کے خلاف لڑتا ہے۔اسے کینسر پر بھی حملہ آور ہونا چاہیے لیکن کینسر تندرست خلیوں کی خراب صورت ہوتے ہیں اوروہ قوت مدافعت کے نظام سے بچنے کی صورت نکال لیتے ہیں۔ایپیلیموماب اور نیوولوماب دونوں دوائیں کینسر کو چھپنے سے باز رکھتی ہیں اور مدافعتی نظام کو ان پر حملہ آور ہونے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔وہ کینسر کے کیمائی سگنل میں مخل ہوتی ہیں جس کا کینسر قوت مدافعت پر روک لگانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
نیوولوماب نامی دوا خون کے سفید خلیوں جنھیں پی ڈی-1 کہا جاتا ہے اس کے آف سوئچ کو بلاک کر دیتی ہے جبکہ ایپیلیموماب اسی قسم کے ایک دوسرے سوئچ کو روک دیتی ہے جسے سی ٹی ایل اے 4 کہا جاتا ہے۔ان کو مدافعتی نظام پر لگائے جانے والے بریک کو ہٹانے والا کہا جاتا ہے۔اس حوالے سے ماہرین کہتے ہیں کہ ایک ہی ساتھ دونوں دواؤں کے دینے کا مطلب ہے کہ آپ مدافعتی نظام سے ایک کے بجائے ایک ساتھ دو بریک ہٹا دیتے ہیں جس سے مدافعتی نظام جس رسولی کو پہلے نہیں پہچان سکتا تھا اس کی پہچان کر لیتا ہے اور اس کو برباد کرنے کے لیے سرگرم ہو جاتا ہے۔’
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ یہ دوائیں مدافعتی نظام کے جسم میں کام کرنے کے طریقے کو بدل دیتی ہیں جس کے سبب، تھکاوٹ، جلد پر نشان اور دست جیسے غیرموافق اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بعض اتنے شدید ہوتے ہیں کہ مریض ان کو برداشت نہیں کر پاتے اور اپنا کورس مکمل کرنے کے قابل نہیں رہتے
بہرحال ایمیونوتھراپی کا ایک چھوٹا سا دور بھی مریض کے مدافعتی نظام پر دیر پا اثرات مرتب کرتا ہے۔یہ کینسر کے کیموتھراپی جیسے دوسرے علاج کے بالکل برعکس ہے جو کہ جوں ہی روکا جاتا ہے اپنا کام کرنا بند کر دیتا ہے۔ہرچندکہ ان دیر پا تبدیلیوں کا مطلب منفی اثرات ہوتا ہے اور مریض جوں جوں معمر ہوتا ہے اس کے ابھرنے کا خدشہ رہتا ہے۔
برطانوی کینسر ریسرچ کے سربراہ ڈاکٹر پروفیسر چارلس سوانٹن نے کہا کہ میلانوما کے علاج میں ترقی ‘واقعی بہت تیز’ ہوئی ہے۔انھوں نے کہا ‘میں ایمیونوتھراپیوں کی ترقی اور بعض مریضوں کے نظریے کو تبدیل کرنے کی اس کی صلاحیت دیکھ کر متاثر ہوا ہوں جس سے انھیں اپنے دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ وہ وقت ملا ہے جو انھیں کبھی نہیں مل سکتا تھا۔اور اس پر ابھی کام جاری ہے تاکہ دوسرے قسم کے کینسر کے مریض ان جدید اور اختراعی قسم کے علاج سے مستفید ہو سکیں۔