طالبان کا ایک اہم وفد سابق جنگجو لیڈر اور اب سیاسی دفتر کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر کی قیادت میں اسلام آباد میں موجود ہے جہاں وہ اعلیٰ پاکستانی حکام سے ملاقاتوں میں مصروف ہے وفد نے وزیراعظم عمران خان ، وزیر خارجہ سے ملاقات کی ، اس حوالے سے طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ یہ وفد طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے سینیئر ارکان پر مشتمل ہے اور اس میں ملا برادر سمیت 11 نمائندے شامل ہیں۔ طالبان مذاکرات کاروں کا یہ دورۂ پاکستان ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب افغانستان کےلیے امریکی صدر کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد پہلے ہی پاکستان میں موجود ہیں
زلمے خلیل زاد نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کے حالیہ دورۂ امریکہ میں ان سے ملاقات کی تھی تاہم یہ واضح نہیں کہ وہ پاکستان میں طالبان رہنماؤں سے ملاقات کریں گے یا نہیں۔اگر یہ ملاقات ہوتی ہے تو یہ امریکی نمائندے کی پاکستانی سرزمین پر طالبان کے وفد سے پہلی ملاقات ہو گی۔ اگرچہ اس دورے سے پہلے طالبان کا کہنا تھا کہ وہ دورہ پاکستان میں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کریں گے ترجمان سہیل شاہین کے مطابق امریکا کے ساتھ امن مذاکرات کی بحالی پر تیار ہیں، امریکا مذاکرات میں واپس آئے تو اُسے خوش آمدید کہیں گے۔ترجمان افغان طالبان کا مزید کہنا تھا کہ امریکا کے ساتھ معاہدہ مکمل ہو چکا، اور اُس معاہدے پر آج بھی قائم ہیں
دوسری جانب طالبان کے دورے کے حوالے سے ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل کا کہنا ہے کہ طالبان وفد کی پاکستانی وفد کے ساتھ ملاقات میں افغان امن کے عمل کی بحالی پر اتفاق ہوا۔ دونوں جانب سے افغانستان میں امن کے لیے مذاکرات بحالی پر زور دیا گیا۔ ہفتہ وار بریفنگ میں ترجمان کا کہنا تھا کہ طالبان وفد کی پاکستانی وفد کے ساتھ ملاقات ہوئی، دونوں جانب سے افغان امن کے عمل کی بحالی پر اتفاق ہوا اور افغانستان میں امن کے لیے مذاکرات بحالی پر زوردیا گیا۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ طالبان وفد کی آمد کے بہت حساس پہلو ہیں، پاکستان کی امن کے فروغ کی کوششیں قابل قدر ہیں۔ افغان طالبان سے ملاقات کے دیگر حساس پہلو وقت پر سامنے لائیں گے۔
اُدھر وزیرخارجہ شاہ محمود سے طالبان کےوفد نےملاقات کی اس موقع پر وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین دو طرفہ برادرانہ تعلقات، مذہبی ثقافتی اور تاریخی بنیادوں پر استوار ہیں جبکہ پاکستان گذشتہ 40 برسوں سے افغانستان میں عدم استحکام کا خمیازہ یکساں طور پر بھگت رہا ہے۔ وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان صدق دل سے سمجھتا ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے اور افغانستان میں قیام امن کے لیے ‘مذاکرات’ ہی مثبت اور واحد راستہ ہے۔انھوں نے کہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ آج دنیا، افغانستان کے حوالے سے ہمارے (پاکستان) مؤقف کی تائید کر رہی ہے۔
وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے افغان امن عمل میں مشترکہ ذمہ داری کے تحت نہایت ایمانداری سے مصالحانہ کردار ادا کیا ہے کیونکہ پرامن افغانستان پورے خطے کے امن و استحکام کیلئے ناگزیر ہے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ فریقین مذاکرات کی جلد بحالی کی طرف راغب ہوں تاکہ دیرپا، اور پائیدار امن و استحکام کی راہ ہموار ہو سکے۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ گذشتہ کئی برسوں سے پاکستان دنیا کو یہ یاد کرواتا رہا ہے کہ وہ افغانستان کی ‘ہارڈ کور’ (سخت گیر) سیاسی، معاشی، معاشرتی اور تہذیبی زمینی حقائق کو نظرانداز نہ کریں۔ انھوں نے کہا کہ افغان تنازعے کا پرامن حل تشدد کے واقعات میں نمایاں کمی کا باعث بنے گا۔وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ افغانستان میں امن کے حصول کے لیے موجودہ علاقائی اور بین اقوامی اتفاق رائے نے ایک بے مثل موقع فراہم کیا ہے جو کسی صورت ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے اس امید کا اظہار کیا کہ تعطل کے شکار افغان امن عمل کی دوبارہ شروعات جلد ہی ہوں گی۔
وزیراعظم عمران خان نے رواں برس جولائی میں اپنے امریکہ کے دورے میں کہا تھا کہ وہ وطن واپسی پر طالبان رہنماؤں سے ملاقات کریں گے اور اُنھیں افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے کہیں گے۔ اس کے جواب میں طالبان ترجمان سہیل شاہین نے کہا تھا کہ اگر وزیراعظم عمران خان اُنھیں دعوت دیں گے تو وہ پاکستان کا دورہ کریں گے اور پاکستانی وزیراعظم سے ملاقات بھی کریں گے رواں سال فروری میں بھی افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے میڈیا کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا تھا کہ اُن کے سیاسی دفتر کا ایک وفد 18 فروری کو پاکستان کا دورہ کرے گا لیکن پھر بعد میں طالبان نے کہا تھا کہ اُنھیں اقوام متحدہ نے پاکستان جانے سے روک دیا۔ اس سلسلے میں وزیراعظم عمران خان نے اس وقت کہا تھا کہ اُنھوں نے افغان حکومت کی تشویش پر طالبان رہنماؤں سے ملاقات ملتوی کی۔