چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق بلاولبھٹو زرداری نے وزیراعظم عمران خان کے القاعدہ کو تربیت دینےکے بیان پر دفترخارجہ کے حکام سے وضاحت طلب کرلی ہے، کمیٹی کے اجلاس کے دوران انہوں نے کہا کہ ایسے بیانات سے پاکستان کی خارجہ پالیسی پر سوال اٹھتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ممکن ہے وزیراعظم کا القاعدہ سے متعلق بیان زبان کا پھسلنا ہو لیکن وضاحت ضروری ہے۔
دوران اجلاس چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے وزیراعظم کے افغانستان سے منسلک سرحد کو ’انگریزوں کا بارڈر‘ قرار دینے کے بیان کی بھی وضاحت طلب کی۔ اجلاس میں دفترخارجہ حکام نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نے افغانستان کی سرحد سے متعلق پورس بارڈرکی بات کی، روس کے افغانستان آنے پر پاکستان امریکا کے ساتھ مل کرکام کررہا تھا اور وزیراعظم نے القاعدہ کی تربیت کرنے کا بیان بھی اسی تناظر میں دیا لیکن ان کے بیانات کو سیاق و سباق سے ہٹ کر سمجھا گیا۔
اجلاس کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے دفترخارجہ کے حکام سے کہا کہ بتایا جائے حکومت نے ابھی تک مسئلہ کشمیر پر کون سا ٹھوس قدم اٹھایا؟ 58 ممالک کی جانب سے کشمیر کے حق میں ووٹ کی یقین دہانی کے باوجود ناکامی کی وجوہات کیا ہیں؟ کشمیر پر قرارداد پیش کرنے کیلئے 16 ممالک تک کی حمایت حاصل نہ کرنے کی کیا وجوہات ہیں ؟اس پر وزارت خارجہ حکام نے جواب دیا کہ انسانی حقوق کونسل میں قراردادمنظور کروانے کا مناسب وقت نہ تھا، اس کی بعض تکنیکی وجوہات بھی تھیں۔
یاد رہے کہ پاکستان کو اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل میں 19 ستمبر تک بھارت کے خلاف ایک قرارداد پیش کرنا تھی تاکہ اس قرارداد کی روشنی میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال پر کونسل کا خصوصی اجلاس بلایا جا سکے، اس قرارداد کو پیش کرنے کیلئے پاکستان کو کونسل کے 47میں سے صرف 16رکن ممالک کی حمایت درکار تھی تاہم پاکستان کی جانب سے قرارداد جمع نہیں کرائی جاسکی۔
سال ختم ہونے سے پہلے سلیکٹڈ حکومت کو گھر جانا ہوگا،بلاول بھٹو
دوسری جانب راولپنڈی میں میڈیا سے گفتگو میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ اس وقت پیپلزپارٹی صرف مولانا فضل الرحمان کی اخلاقی اور سیاسی حمایت کر رہی ہے لیکن آپشنز محدود ہوئے تو پی پی بھی انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوجائے گی کہ وہ بھی مارچ کرے اور اسلام آباد میں دھرنا دے۔وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ وہ احتجاج کرنے والوں کو کنٹینر بھی دیں گے اور کھانا بھی لہٰذا اب مولانا فضل الرحمان آرہے ہیں تو عمران خان انہیں کنٹینر اور کھانا دینے کا وعدہ پورا کریں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ حکمران کس منہ سے اپوزیشن نمائندوں پر ’را‘ کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگاتے ہیں، مذہب کو سیاست کیلئے استعمال نہیں کرنا چاہیے، فضل الرحمان سے ہمارے بھی اختلافات رہے ہیں لیکن ہم نے کبھی ایسا الزام نہیں لگایا۔ڈپٹی اسپیکر کے سپریم کورٹ سے حکم امتناع پر بلاول کا کہنا تھا کہ ہمارا سیلیکٹڈ ڈپٹی اسپیکر ڈی سیلیکٹ ہوا اور پھر ری سیلیکٹ ہوا، ہمارے ملک میں ایسا بھی ہوتا ہے، دیکھتے ہیں ڈپٹی اسپیکر سے متعلق حتمی فیصلہ کیا ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت آصف زرداری کو طبی سہولیات فراہم کرنے کیلئے تیار نہیں، یہ تبدیلی حکومت کا انصاف ہے؟ زرداری بہادر قائد ہیں جو ایسے ہتھکنڈوں سے نہیں ڈرتے۔