شدت پسندی کے خلاف برطانوی حکومت کی کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے اندر خالصتان تحریک کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ نہیں ہے۔برطانوی حکومت کی رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ سکھ بھارتی پالیسیوں سے ناراض ہیں، بھارت نے خالصتان تحریک کو دہشت گرد قرار دیا جس پر سکھ ناراض ہوئے، برطانیہ میں مقیم ہندوؤں اور سکھوں کے درمیان بھی تناؤ موجود ہے۔
کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اوورسیز سکھ کمیونٹی اپنی شناخت سے متعلق زیادہ حساس ہیں، وہ خالصتان تحریک کے حوالے سے سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔کمیشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ گولڈن ٹیمپل حملے کے بعد سے خالصتان کے مطالبے میں شدت آئی ہے، بھارتی حکومت اور میڈیا کا رویہ بھی سکھ علیحدگی پسندی کو ہوا دے رہا ہے۔کمیشن رپورٹ میں ایک سروے بھی شامل کیا گیا ہے، جس کے مطابق سکھوں کی اکثریت اب الگ ملک کا قیام چاہتی ہے۔
بھارتی حکومت کی جانب سے پاکستان پر گذشتہ کئی برسوں سے یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ پاکستان خالصتان علیحدگی پسند تحریک کو ہوا دے رہا ہے۔دوسری طرف پاکستان کی جانب سے بہترین ڈپلومیسی کے تحت کرتارپور راہداری کھولی گئی تاکہ انڈیا کے سکھ اپنے مقدس مقام کی زیارت کے لیے آسانی سے آ سکیں، اس سلسلے میں سکھوں کے لیے بہترین انتظامات بھی کیے گئے ہیں۔
خالصتان تحریک اور اس کی نئی شکل:
سکھ علیحدگی پسند تحریک جو 80ء کی دہائی کے اوائل میں بہت پرجوش اندازمیں شروع ہوئی، اور اگلے دس پندرہ برسوں میں کچل دی گئی،لیکن بھارت میں غیر ہندووں کے ساتھ بہیمانہ اور امتیازی سلوک نے سکھوں کو ایک بار پھر یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ ان کا ہندووں کے ساتھ کسی صورت گزارا ممکن نہیں ہے۔ جس کے بعد یہ تحریک اب ایک بارپھر اٹھ کھڑی ہوئی ہے لیکن ایک نئے انداز اور نئے جوش وخروش کے ساتھ۔ 80ء کی دہائی والی تحریک مسلح جدوجہد میں بدل گئی تھی تاہم اب اس کا نیا انداز سیاسی ہے۔ البتہ منزل آزاد مملکت خالصتان ہی ہے، سکھ قوم اس سے کم کسی چیز پر آمادہ نہیں۔ اسی لئے ہرسکھ کی زبان پر ’ریفرنڈم 2020ء‘ کا نعرہ ہے
اس ریفرنڈم کے تحت پنجاب کی سکھ قوم سے پوچھا جائے کہ
” وہ آزادمملکت خالصتان کے حق میں ہے یا بھارت کے ساتھ ہی زندگی بسر کرناچاہتی ہے”؟
سکھ قوم سمجھتی ہے کہ وہ یہاں کے پرانے باسی ہیں۔ یہ ان کا تاریخی وطن ہے، ان کا ایک الگ مذہب ہے اس لئے وہ ایک الگ مملکت میں رہنے کا استحقاق رکھتے ہیں۔ امریکا، برطانیہ، جرمنی اورکینیڈا میں مقیم سکھ غیرمعمولی طورپر ’ریفرنڈم 2020ء‘ کی تحریک میں سرگرم کردار اداکررہے ہیں، وہ بڑے مظاہرے اور دیگرپروگرام منعقد کررہے ہیں۔
بھارت کے ساتھ اب تو مقبوضہ کشمیر میں بھی مظاہرے کیئے گئے لیکن 5 اگست کے مودی سرکار کے اقدام کے بعد فی الحال اس معاملے پر مقبوضہ وادی میں ابھی خاموشی ہے۔۔رواں سال چھ جون کو امرتسر میں گولڈن ٹیمپل میں بھی بڑی تعدادمیں سکھ جمع تھے، وہ ’خالصتان زندہ باد‘،’ لے کے رہواں گے خالصتان‘،’ بن کے رہے گا خالصتان‘ کے نعرے لگارہے تھے۔مودی سرکار کے حکم پر پولیس نے مظاہرین کی زبان بندی کراناچاہی تو وہ مشتعل ہوگئے۔ یوں سکھ نوجوانوں اورپولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔ایک بھارتی اخبار کی رپورٹ کے مطابق صوبہ پنجاب کے دارالحکومت امرتسر میں شیرومانی اکالی دل کے حامیوں نے گولڈن ٹمپل پر سابق ممبرصوبائی اسمبلی دھیان سنگھ مند کی قیادت میں سکھوں کی روایتی چمکتی تلواروں کے علاوہ ’’خالصتان زندہ باد‘‘کے فلک شگاف نعرے بھی بلند ہوئے۔
احتجاجی مظاہرے پر پنجاب پولیس نے ہلہ بول کر 25سکھ مظاہرین کو گرفتار کرلیا۔ اکالی تخت کے جتھے دار نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ پوری دنیا میں سکھ کمیونٹی کے گولڈن ٹمپل (آپریشن بلیو سٹار)کے زخم ابھی مندمل نہیں ہوئے۔ یادرہے کہ آپریشن بلیو سٹار تین سے آٹھ جون 1984ء کو امرتسر میں سکھوں کے مقدس مقام ’گولڈن ٹیمپل‘ میں ہوا۔ آپریشن میں بھارتی فوج کے10ہزارفوجیوں، سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے 700 اہلکاروں، بارڈرسیکورٹی فورس کے ڈیڑھ سو اہلکاروں سمیت پنجاب پولیس کی بڑے پیمانے پر نفری نے حصہ لیا جبکہ فضائیہ نے بھی مدد کی۔ آپریشن کے نتیجے میں 136فوجی اور سپاہی ہلاک ہوئے جبکہ دوسری طرف 140سے 200تک سکھ ہلاک ہوئے۔
ان میں خالصتان تحریک کے قائد سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ بھی تھے۔بھارتی فوج اور دیگرسیکورٹی فورسز نے اس اندھا دھند آپریشن میں ہر سکھ کو علیحدگی پسند سمجھا، یوں انھوں نے 5000عام شہریوں کو بھی گولیوں سے بھون ڈالا۔ سکھ قوم برسوں سے جون کے پہلے ہفتے میں اپنے شہدا کو خراج تحسین پیش کرتی ہے تاہم اس بار مودی سرکار نے اعلان کیا کہ سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کا نام کسی کی زبان پر نہ ہو چنانچہ ہرایسی تقریب کو الٹ دینے کا حکم دیاگیا۔
جموں اور کشمیر میں بھی سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالا کی تصویر پر مبنی ایک پوسٹر پھاڑے جانے پر بھارت مخالف مظاہرے ہوئے۔ یہ مظاہرے اس وقت تشدد آمیز ہوگئے جب پولیس سے جھڑپوں میں ایک سکھ نوجوان ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔ وہاں کے سکھوں کا کہناہے کہ تاریخ میں پہلی بار سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالا کی تصاویر نہیں چسپاں کی گئیں، برسوں سے ان کا یہ معمول ہے۔ تاہم اس بار مودی سرکار کی فرعونیت کی وجہ سے حالات میں بگاڑ پیدا ہوا۔
اندرا گاندھی کے بعد کی حکومتوں نے ’آپریشن بلیوسٹار‘ کو بظاہر غلطی قراردیتے ہوئے سکھوں سے معافی مانگی تھی ، سکھوں کا مطالبہ تھا کہ اس آپریشن کے تمام ذمہ داران کوکڑی سزادی جائے۔ تاہم ایسا نہ ہوا۔ اس کا نتیجہ اب ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ کچلی ہوئی تحریک پھر اٹھ کھڑی ہوئی ہے اورخالصتان کا نعرہ ایک بار پھر پورے زوروشور سے لگ رہاہے۔ سکھ تنظیم شیرومانی اکالی دل کاکہنا ہے کہ نئی مملکت( خالصتان) پاکستان، بھارت اور چین کے درمیان ’بفرنیشن‘ کا کردار اداکرسکتی ہے۔
مغربی ذرائع ابلاغ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ گزشتہ عرصے میں مغربی ممالک میں آزاد سکھ ریاست ’خالصتان‘ کے قیام کے حامی فعال ہو رہے ہیں۔ یورپ اور شمالی امریکا کے ملکوں میں سکھ عسکریت پسند تنظیموں کے لیے چندہ جمع کرنے کی بھرپور مہمات چلائی جا رہی ہیں۔ جبکہ بھارتی اداروں کا کہناہے کہ بھارت اور اسی طرح بہت سے یورپی ملکوں میں ’ببّر خالصہ انٹرنیشنل‘ اور ’خالصتان کمانڈو فورس‘ جیسی کالعدم تنظیموں نے اپنے مشن کے لیے نوجوان افراد بھرتی کرنا شروع کردئیے ہیں۔
مغربی ملکوں میں بسنے والے نوجوانوں کو خاص طور پر کیے گئے انتظامات کے دوران جذبات ابھارنے والی فلمیں مثلاً ’’آپریشن بلیو سٹار‘‘دکھائی جارہی ہیں۔ اس کے علاوہ دوسرا پروپیگنڈا مواد بھی دکھایا، سنایا یا تقسیم کیاجارہا ہے۔ بھارتی ذرائع کے مطابق اس تشہیری مہم میں کم از کم 50 سوشل نیٹ ورک سائٹوں اور 20 ویب سائٹوں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ بھارت اسے بہت زیادہ تشویشناک امر سمجھتاہے، اس کی کوشش ہے کہ غیرملکی حکومتیں ایسی بھارت مخالف سرگرمیوں سے نمٹیں تاہم وہاں آزادی فکر وعمل کے سبب سکھ گروہوں کے خلاف کوئی اقدام کرنا مشکل ہے۔
اسّی اور نوے کے عشرے کے اوائل میں سکھ علیحدگی پسندوں کی مسلح جدوجہد نے بھارت کو غیرمعمولی طورپر نقصان پہنچایا۔ ہزاروں عام لوگ، سینکڑوں فوجی، پولیس اہلکار ہلاک ہوئے۔ اس ضمن میں سب سے بڑا نقصان اکتوبر 1984ء میں بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کا قتل تھا۔ وہ اپنے ذاتی سکھ محافظوں کے ہاتھوں قتل ہوئیں۔قاتلوں نے سینہ تان کرکہاکہ انھوں نے آپریشن بلیوسٹار کا بدلہ لیاہے ۔ تاہم نوّے کی دہائی میں سکھ عسکریت پسندوں کا بھی بڑے پیمانے پر نقصان ہوا۔ یوں محسوس ہوا کہ خالصتان تحریک دب گئی ہے، اب ایسالگتا ہے کہ سکھ علیحدگی پسند پھر سے فعال ہو چکے ہیں۔
تبصرہ نگاروں کے مطابق ایک نسل گزر جانے کے بعد موجودہ سیاسی حالات بھی علیحدگی پسندی کے رجحان کو پھر سے ابھارنے میں بڑا کردار ادا کر رہے ہیں‘‘۔ جبکہ بھارت حسب عادت پاکستانی خفیہ ادارے پر الزام عائد کررہا ہے کہ وہ بھارتی پنجاب میں خالصتان تحریک کو مضبوط کررہی ہے۔ اس مقصد کے لئے خالصتان کی تحریک ببر خالصہ اور خالصتان زندہ باد فورس کو جعلی کرنسی اور دیگر سہولیات بھی فراہم کی جارہی ہیں۔
پاکستان پر الزام عائد کرنے والے ہمیشہ یہ سچ جان بوجھ کر فراموش کردیتے ہیں کہ آپریشن بلیوسٹار کے اثرات سکھوں پر ابھی تک ویسے ہی تازہ ہیں وہ نہ اسے بھول سکتے ہیں نہ بھولنے کی کوشش کرتے ہیں کو بھول رہے ہیں۔ کیونکہ کوئی قوم اپنے ساتھ اس قدر بڑی زیادتی اور ظلم کو بھلانہیں سکتی، بالخصوص سکھ قوم ایسا کرہی نہیں سکتی۔ ایسی قوم کے انتقامی جذبات ہی کسی بڑی تحریک کی بنیاد بن جاتے ہیں، اسے کسی دوسری قوم یا ادارے کی مدد کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ اس وقت سکھ قوم بڑے پیمانے پرسیاسی جدوجہد کے ذریعے اپنے لئے حق خودارادیت کا مطالبہ کررہی ہے۔ ایک طفل مکتب بھی سمجھ سکتاہے کہ اگر ریفرنڈم کا مطالبہ نہ مانا گیاتوپھر آزادی پسند سکھ نوجوان بے چین اور مضطرب ہوں گے۔ ان کا اضطراب ایک بڑی معاشی طاقت بھارت کے لئے سخت نقصان دہ ثابت ہوگا۔
اس کا اندازہ سکھ نوجوانوں کی ایک تنظیم کی طرف سے بھارتی فضائی کمپنی ’ایئرانڈیا‘ کے بائیکاٹ سے بھی کیا جاسکتا ہے۔یادرہے کہ امریکا میں مقیم سکھوں کی تنظیم ’ سکھس فار جسٹس‘ ریفرنڈم 2020 کے لئے کام کررہی ہے، اس کی سرگرمیوں پر مودی سرکار پابندیاں لگارہی ہے۔ تنظیم کا موقف ہے کہ وہ ناجائز مطالبہ نہیں کررہی بلکہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق ایک جائز اور قانونی مطالبہ کررہی ہے۔ اب اس کا نعرہ ہے۔