ترکی نے شام کے کرد علاقوں پر حملوں کا آغاز کیا تو چہار جانب سے اس اقدام کی مذمتیں شروع ہوگئیں، سعودی عرب، فرانس، جرمنی، برطانیہ، ایران سمیت کئی ممالک نے اس اقدام کو درست قرار نہیں دیا کئی بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے بھی ترک حملے کو ناپسندیدہ قرار دیا گیا اس کے ساتھ ہی امریکہ کی جانب سے اگرچہ اس حملے کے خلاف بیانات کا سلسلہ شروع ہوا یہاں تک کہ امریکی صدر نے ترکی کو پابندیوں سمیت 3 آپشنز بھی دیئے لیکن تاحال بین الاقوامی مبصرین اور ناقدین اس بات پر بضد ہیں کہ امریکی فوجوں کا شام سے انخلاء ترکی کے حملے کی وجہ بنا ہے یعنی درپردہ کہیں نہ کہیں امریکی حمایت ترکی کو حاصل ہے۔
اس الزام کو غلط ثابت کرنے کیلئے امریکی وزیر کارجہ کے بیانات بھی سامنے آئے، وائٹ ہاوس نے بھی وضاحتی بیان جاری کیا لیکن امریکہ اس الزام سے تاحال نکلنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے، اسی تناظر میں اب امریکی ایوان نمائندگان اورامریکی عوام کی جانب سے وائٹ ہاوس پر ترکی کو شام کے کرد اکثریتی علاقوں میں عسکری کارروائیوں سے روکنے کے لیے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔
اس بڑھتے دباو کا ہی اثر ہے کہ امریکی حکام کے لہجے میں ترکی کے خلاف دن بدن تلخی اور تندی آتی جارہی ہے لیکن یہ جارحانہ انداز ویسا نہیں جیسا ایران کے خلاف اس سے قبل استعمال کیاجاتا رہا ہے،اس حوالے سے امریکہ کے سکیرٹری دفاع مارک ایسپر نے ترکی کو ’سنگین نتائج‘ سے خبردار کیا ہے جبکہ امریکہ کے وزیرِ خزانہ اسٹیون منوچن نے بھی تازہ پابندیوں کا امکان ظاہر کیا ہے۔
امریکی صدر بھی اپنے بیانات میں ترکی پر پابندیوں کے امکانات ظاہر کرتے آرہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ نیٹو اتحادی ترکی اور کردوں کے درمیان ثالثی کے خواہاں ہیں۔ تاہم ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کہتے ہیں کہ عسکری کارروائیاں جاری رہیں گی۔ ترکی کے صدر کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد شام کی سرحد کےساتھ 480 کلومیٹر ایک ’محفوظ زون‘ بنانا ہےجو کردمیلیشا سے پاک ہو اوریہ شامی مہاجرین کے لیے گھر بھی ہوسکتا ہے
اُدھراقوامِ متحدہ کے مطابق ترک افواج کی جانب سے حملوں میں تیزی آنے کے بعد شمالی شام میں ہزاروں افراد نے اپنا گھر بار چھوڑ دیا ہے اور محفوظ علاقوں کی جانب نقل مکانی کی ہے،اور یہ بحران دن بدن گہرا ہوتا جا رہا ہے جمعے کو امریکی فوجی بھی ترکی کے توپ خانے سے کی جانے والی فائرنگ کی زد میں آچکے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کےمطابق کردوں کی زیرقیادت شامی ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) ، جو اس خطے میں امریکہ کی اہم اتحادی ہیں، کو ترکی اور شام کی سرحد پر تقریبا 75 میل (120 کلو میٹر) تک ترک زمینی اور فضائی حملوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ترک خبر رساں ادارے اناطولو کے مطابق فوج نے اپنے پہلے ترک فوجی کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے جبکہ تین دیگر زخمی ہیں۔ ایس ڈی ایف اور ترکی کے حامی دھڑوں کے درجنوں جنگجو ہلاک ہوگئے ہیں۔شامی علاقے میں ترک آپریشن بدھ کو شروع ہوا تھا اور ترک فوج نے فی الوقت سرحدی قصبوں راس العین اور تل ابیض کے درمیانی علاقے میں پیش قدمی کی ہے جس کے بعد امدادی اداروں کو خدشہ ہے کہ نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ سکتی ہے۔
یاد رہے کہ ترک صدر نے یورپی یونین کی تنبیہ کی تھی کہ ’اگر آپ نے ہماری کارروائی کو حملہ قرار دیا تو ہمارا کام بہت آسان ہوگا، ہم اپنے دروازے کھول دیں گے اور 36 لاکھ پناہ گزینوں کی آپ کی جانب روانہ کر دیں گے۔‘صدر اردوغان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ سعودی عرب کی اس آپریشن کے بارے میں تنقید برداشت نہیں کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’آپ پہلے یمن میں اموات کا جواب دیں۔
دوسری جانب 3 روز قبل امریکہ کے ایوانِ نمائندگان میں حکمران جماعت رپبلکن پارٹی کے ارکان نے اس کارروائی پر ترکی کے خلاف پابندیوں کا بل پیش کرنے کا اعلان کیا ہے۔کانگریس کی خاتون رکن لز چینی کا کہنا تھا کہ ترکی کو خطے میں ’ہمارے کرد اتحادیوں پر بےرحمی سے حملہ کرنے کے سنگین نتائج‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ترکی کرد ملیشیا (ایس ڈی ایف) کو ‘دہشت گرد’ قرار دیتا ہے جو اس کے بقول ترک مخالف شورش کی حمایت کرتی ہے۔ ایس ڈی ایف دولتِ اسلامیہ کے خلاف جنگ میں امریکہ کی کلیدی حریف رہی ہے اور اس نے امریکہ کی جانب سے ترکی کو کارروائی سے نہ روکنے کو پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ تاہم یہ خدشات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ یہ کارروائی نہ صرف کردوں کی نسل کشی کا موجب ہو سکتی ہے بلکہ اس کی وجہ سے شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ بھی سر اٹھا سکتی ہے۔ ان حالات میں ترکی کے خلاف امریکہ کے اقدامات کس قدر سخت ہوسکتے ہیں اسی بناء پر ترک حملے کا تدارک ممکن ہے یا باالفاظ دیگر ترک کارروائی سے خطے میں ایک بار پھر کشیدگی کے وہ بادل گہرے ہوجائیں گے جنھیں ایران، سعودی، امریکہ تنازع کی صورت میں کم کرنے کیلئے کوششیں شروع کی جاچکی ہیں۔