پاکستان کا سیاسی کلچر یہ رہا ہےکہ اقتدارپربیٹھےہرشخص کو خواہ وہ کسی جماعت کاہو اپوزیشن کی جانب سےاس کےہراقدام کی مخالفت کی جاتی ہےاور اس مخالفت میں حزب اختلاف اتنی آگے بڑھ جاتی ہےکہ اسےصاحبِ اقتدارکےاچھےاقدامات بھی نظرنہیں آتے،ایک سچ یہ بھی ہےکہ حکمران کوئی بھی ہووہ مکمل کسی صورت میں نہیں ہوسکتا اس کےاقدامات اورپالیسیاں کہیں نہ کہیں خامیاں اورکوتاہیاں لیئے ہوئےہوتی ہیں لیکن حکمران کے اقدامات کوعام پیمانےسے پرکھنا بیوقوفی کےسوا کچھ نہیں کہلایا جاسکتا اصولی طورپر یہ دیکھنا چاہیئےکہ حاکم کےاقدامات کتنےوسیع ترمفادات اور دُوررس نتائج کےحامل ہیں۔
پاکستان کےموجودہ حکمران تحریک انصاف کےچیئرمین عمران خان ہیں جن پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہےکہ انتخابات سےقبل انھوں نےجوبلند بانگ دعوےکیئےتھےوہ اقتدارمیں آنے کے بعد یکسر فراموش کردیئےنتیجے میں پاکستانی عوام کی حالت زار شاید بد سے بدتر ہوچکی ہے، یہ الزام اپنےتئیں اس لیئے درست ہے کہ وفاقی کابینہ میں شامل وزراء اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نہیں نبھا پارہے اور نہ ہی وزیراعظم کےمشیران انھیں عوام کی حالت زار کی بہتری کیلئے فوری اور مطلوبہ امور کا مشورہ دیتے نظرآتے ہیں جبکہ اطلاع یہ بھی ہے کہ بیوروکریسی بھی وزیراعظم اور وفاقی وزراء کی ہدایات پر عمل کرنے میں غیر ضروری اور بے جا تاخیر کررہے ہیں جس کی وجہ سے حکومت کی اصلاحاتی پالیسیوں کے نتائج عوام تک منتقل نہیں ہوپارہے، اور اگر یہ عمل جاری رہا تو عمران خان کی گرفت کمزور ہوتے ہوتے ان کے اقتدار کیلئےانتہائی نقصان کا باعث بن سکتی ہے جس پرفوری توجہ کی ضرورت ہے۔
ان خامیوں کے علاوہ عمران خان کے اقتدار کی کچھ اہم خوبیاں اور خامیابیاں بھی ہیں جنھیں شاید اب تک سمجھا نہیں گیا یا سمجھنے کی کوشش نہیں کی جارہی جبکہ ان کامیابیوں کو بلاشبہ پاکستانی سیاست کا اہم سنگ میل قرار دیا جاسکتا ہے۔
مسئلہ کشمیر:
ابتداء میں عمران خان کو موقع مل نہیں رہا تھا لیکن بھلا ہو نریندر مودی کا جس نے 5 اگست کا اقدام کرکےاپنے پاوں پر کلہاڑی مارلی اوراس موقع سے وزیراعظم عمران خان نے فوری اور بھرپور فائدہ اٹھایا اور مسئلہ کشمیر کو دنیا کے ہر قابلِ ذکر اور اہم فورم پر نہ صرف اجاگر کیا بلکہ وہ اس میں اس حد تک کامیاب ہوگئے کہ عالمی برادری یہ کہنے پر مجبور ہوگئی کہ کشمیر میں واقعی بھارت ظلم کررہا ہے،کشمیر کی آزادی اور بھارتی تسلط سےنجات کی آوازیں گردش کرنے لگیں اور 70 برس سے بھارت کے اس موقف کہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے کی مکمل نفی ہوگئی مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر عالمی مسئلہ قرار دلوانے میں عمران خان کے کردار کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔
افغانستان میں قیام امن:
عمران خان کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہےکہ افغانستان میں قیام امن کا واحد راستہ مذاکرات ہے امریکہ اسے فوجی طریقے سے کسی صورت حل نہیں کرسکتا، شاید یہ عمران خان کی باتوں کا ہی اثر تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دوحہ میں افغان طالبان سے مزاکرات کا آغازکیا اور اس میں کامیابی کی حد کو پہنچتے ہوئےاگرچہ ان مذاکرات کو معطل کیا گیا لیکن پھرپاکستان کی کوششوں سے اس عمل کو نہ صرف دوبارہ شروع کیا جارہا ہے بلکہ پاکستان کا اس میں اہم کردار بھی اجاگر ہورہا ہے، اب امریکہ افغانستان سےاپنی فوجوں کے انخلاء پر بھی راضی ہےاس سے امید بندھ چلی ہے کہ افغانستان میں قیام امن سےمغربی سرحدوں پر تعینات پاکستان افواج کو بھی ریلیف ملے گا اورپاک فوج مکمل طورپرمشرقی سرحد پر بھارتی شرانگیزیوں پرتوجہ مرکوزکرسکے گی۔
بھارت کی تنہائی:
پاکستان کے ازلی دشمن انتہا پسند بھارت کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ وہ عالمی سطح پر پاکستان کو تنہا کردے اس ضمن میں اس کی متعدد کوششیں کامیابی کے قریب بھی پہنچیں اور ان کوششوں کو کامیاب بنانے میں پاکستان کے ماضی کے حکمرانوں کا کردار بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ساتھ ہی بھارت نےاربوں ڈالرزلگا کرافغانستان میں اپنا اثررسوخ بڑھا کر پاکستان کےخلاف نفرتیں بیدار کرنے کی کوششیں کیں، دہشت گردی کے واقعات کروائے لیکن اب یہ بازی الٹی ہورہی ہے، افغانستان میں قیام امن کے عمل کی وجہ سے بھارت کا وہاں کردار اور سرمایہ کاری شدید متاثر ہورہی ہے، پھر مقبوضہ کشمیر میں مظالم کی وجہ سے عالمی برادری بھارت کی ایک ارب 30 کروڑ کی مارکیٹ کے اثرات سے نکل رہا ہے، امریکہ برطانیہ، روس، چین، فرانس، جرمنی برملا کہنے لگے ہیں کہ بھارت کی مارکیٹ بہت بڑی صحیح لیکن اس کی وجہ سے بھارتی مظالم سے نظریں نہیں چُرائی جاسکتیں۔ ان امور کے علاوہ، چین سے پاکستانی کی دوستی میں استحکام، روس سے تعلقات کی بحالی اور ایران سے مستحکم ہوتے تعلقات نے بھارت کو بوکھلاہٹ کا شکارکردیا ہے
اس کے علاوہ ایران اور سعودی عرب میں تنازع پاکستانی وزیراعظم کے سہولت کار کا کردار، ایران امریکہ کشیدگی کے خاتمے کیلئے ٹرمپ کا عمران خان پر مکمل اظہار اعتماد، ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کی بہتر ہوتی پوزیشن اور بلوچستان میں گوادر سمیت سی پیک منسوبوں پر تیزی سے پیش رفت عمران خان کی کامیابیاں ہی ہیں اب ایسے میں مخالفت برائے مخالفت کی سیاست کی تائید نہیں کی جاسکتی یہ ضروردیکھنا ہوگا کہ موجودہ حکومت کے یہ کارنامےحقیقی طورپرلائق تحسین ہیں اب پاکساتن کےداخلی معاملات رہ گئے ہیں جن کےبارے میں حکومت کی معاشی ٹیم کا دعویٰ ہےکہ اس کےاثرات بھی چند ماہ میں سامنےآنا شروع ہوجائیں گےایسےمیں پذیرائی نہ صحیح کم از کم مخالفت بھی نہیں بنتی۔