دنیا کا کوئی مذہب ہواس کےماننےوالےاپنےمذہبی مقامات پرجب جاتے ہیں توان میں سےکچھ کو ہی شاید یہ خیال آتا ہوکہ وہ دوبارہ اسی جگہ جائےورنہ زندگی میں ایک مرتبہ جاکے وہ یہی سمجھتا ہے کہ اس کا فریضہ پورا ہوگیا، لیکن سچ یہ ہےکہ کربلا میں روضہ امام حسین علیہ االسلام کی زیارت واحد ہےجہاں کسی بھی رنگ، نسل، مذہب،مسلک سے تعلق رکھنےوالا شخص ایک مرتبہ پہنچ جائے تواس کے دل میں یہ تمنا ضروربیداررہتی ہےکہ موقع ملا تودوبارہ ضرورآوں گا، اوراگرحُب اہلِ بیت علیہم السلام ہےتو وہ ایک بار جاکے بار بار کربلا جانے اورزیارات کا متمنی ضرور ہوتا ہے۔
زائرِ امام حسین علیہ السلام کی فضیلت اورعظمت پربہت سےعلمائےکرام کی تقاریروتحاریرموجودہیں اور لوگ اس سے واقف بھی ہیں اس کا سب سے بڑا ثبوت اربعین امام حسین علیہ پر نجف سے کربلا تک کا 100 کلومیٹر کا پیدل سفر ہے جس مین آپ کو ہر نسل، ہر عمر ور ہر مزہب کے لوگ نظر آئیں گے اور اس طویل راستے کے دونوں جانب ہزاروں لاکھوں افراد اپنی پلکیں بچھائیں زائرین امام حسین کی ایک نظرِ کرم کے طالب ہوتے ہیں ان کو اپنے دسترخوان پر مدعو کرنے کے متمنی ہوتے ہیں، ان زائرین کے قدموں کی خاک کو اپنے لیئے متبرک جانتے ہیں اور یہ سب کچھ ایسے ہی نہیں ہے اس کے پیچھے یقینا کوئی نہ کوئی ایسی بات، ایسی فضیلت ایسا معاملہ ہے جوزائرِ امام حسین علیہ السلام کو فرش سے عرش تک پہنچا دیتا ہے۔
زائرِ امام حسین کی فضیلت اور مرتبہ سمجھنے کیلئے قارئین کی خدمت میں ایک سچا واقعہ پیش خدمت ہے۔ یہ واقعہ قاضی شوستری نے اپنی کتاب مجالس المومنین ۔(۱)میں اور زنوزی نے ”ریاض الجنة“میں مجلس اول میں تحریرکیا ہے:
سرزمین عراق کے ایک مشہور شاعر و محبِ اہلِ بیت گزرے ہیں جن کا نام ابو الحسن جمال الدین علی بن عبد العزیز ابو محمد خلعی موصلی حلی گزرے ہیں جنھوں نے اہلِ بیت علیہم السلام کی مدح وثناء میں بے شماراشعارکہےہیں ان کا جو دیوان اس وقت موجود ہے اس میں صرف اہلِ بیت کی شان میں مرثیہ ہیں،جمال الدین بہت برے عالم و فاضل شخص تھےاور ٓپ مختلف علوم میں فن مہارت رکھتے تھے ، اور شعر کہنے میں بھی زبردست قوی تھے،آپ کا تعلق عراق کے ششہر موصل سےتھا بعد میں شہر حلہ میں زندگی بسرکی جس ووجہ سسے موصلی وحلی کہلاتے تھے جمال الدین خلعی موصلی حلی کی وفات آض سے 690 برس قبل 750 ہجری میں ہوئی آ پ کی قبرحلہ میں بہت ہی مشہورومعروف ہے۔
یاد رہےکہ عراق کا شہرموصل شروع سے ہی اہلِ بیت اطہار کے دشمنوں کا مرکزرہا ہےاور موجودہ دور میں دہشت گرد تنظیم داعش نے بھی اسےاپنا مرکزبنایا تھا یہ واقعہ خود جمال الدین موصلی نے سنایا جو بعد میں مختلف ذرائع اور کتب کے ذریعے عام ہوا واقعہ کے مطابق جمال الدین خلعی کے والدین جو موصل میں رہتے تھے وہ حد درجہ دشمن اہلِ بیت علیہم السلام تھے اُن کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ تمام روضوں کو تباہ کردیں اور زائرین امام حسین علیہ السلام کو قتل کردیں۔
خلعی کے والدین اولاد نہ ہونے کی وجہ سے پریشان رہتے تھے آخر کار ان کی والدہ نے منت مانگی کہ اگرمیرے یہاں لڑکا پیدا ہواتو میں اس کو امام حسین علیہ السلام کے زائرین کا مال لوٹنے اورقتل و غارتگری میں مصروف کروں گیغرض کچھ عرصہ بعد جمال الدین خلعی کی پیدائش ہوئی، والدین نے ااپنی منت کے تحت ان کی تربیت اس انداز میں کی کہ اان کے دل و دماغ میں اہلِ بیت علیہم السلام کی نفرت بھر گئی آپ جب بالغ ہوگئے تو آپ کی والدہ نے اپنی منت کو پورا کرنے کےلئے انھیں کہا کہ جاو اور کربلا جانے والے رستے پر گھات لگا کر بیٹھو اور وہااں سے گزرنے والےزائرین کے قافلوں پرحملے کرکے انھیں قتل کرو،جب خلعی کربلا کے نزدیک پہونچے توزائرین کے انتظارمیں بیٹھ گئےاورانتظارکرتےکرتے تھک کر یا مصلحتِ پروردگار کے تحت گہری نیند سوگئےاسی اثناء میں ایک قافلہ آیا اوروہاں سےگزرگیا،گھوڑوں،خچروں اورزائرین کےقدموں سےاڑنے والی دھول مٹی اُڑکرخلعی کےپورے جسم پرجم گئی اورانھیں احساس تک نہ ہوا۔
خلعی کے مطابق گہری نیند میں سوتے ہوئے ہی میں نے خواب دیکھا کہ قیامت آگئی اورحساب کتاب کے بعد حکم دیا گیا کہ خلعی کوجہنم میں ڈال دیاجائےجب فرشتوں نے اسےجہنم کی آگ میں ڈالا تو خلعی کے جسسم کاا ایک بال بھی نہیں جلا یہ دیکھ کر فرشتوں نے آتشِ جہنم سے سوال کیا کہ تُو اسے جلاتی کیوں نہیں ۔۔؟؟ آگ نے جواب دیا کہ اس شخص کے جسم پر زائرینِ امام حسین علیہ السلام کے قدموں کی خاک لگی ہوئی ہے اس لیئے آتشِ جہنم ااس پر اثر نہیں کرسکتی، یہ سُن کر فرشتوں نے خلعی کو وہاں سے نکالا اور نہلا دُھلا کر پحر جہنم کی آگ میں جھونک دیا لیکن اس مرتبہ بھی آگ نے ااپنا اثر نہیں دکھایا۔
فرشتوں نے داروغہ جہنم سے سوال کیا کہ اب کیا بات ہے گرد و غبار تو صاف ہوگئی اب اس پر آگ اثر کیوں نہیں کرتی، جواب ملا کہ سوتے ہوئے کچھ خاک اُڑ کراس کےحلق میں چلی گئی تھی اور اب اس کے جسم کا حصہ بن چکی ہے اس لیئے آتشِ جہنم اس کا کچھ نہیں بگاڑسکتی۔
خلعی بتاتے ہیں کہ بس خواب یہاں تک دیکھا کہ اچانک میری آنکھ کُھل گئی تودیکھا کہ میرا پورا جسم راستے سسے گزرنے والے قافلے کے قدموں سے اُڑنے والی خاک سےاٹا ہوا ہے، خلعی کہتے ہیں کہ میں صرف نیند سے ہی بیدار نہیں ہوا تھا بلکہ اس خواب نے میرے دل کی آنکھوں کو بھی کھول دیا تھا وہ گرد و غبار میرے جسم پر تو لگی تھی لیکن اس نے میرے کالے دل و دماغ کو دھودیا تھا اب مجھے ہر چیز واضح نظر آرہی تھی مجھے سمجھ آگیا کہ میرے والدین جو اہلِ بیت علیہم السلام کی دشمنی اور نفرت کے مرض میں مبتلا ہیں وہ سنگین غلطی پر ہیں اصل حق و سچ کا راستہ تو کربلا اور مرکز ہدایت روضہ نواسہ رسول ہے۔
جمال الدین خلعی موصلی یہ خیال آتے ہی فوراً عازمِ کربلا ہوئے اور روضہ امام حسین علیہ السلام پر پہنچ کر خوب روئے اور دعا کی کہ مولا میری خطاوں کو معاف کیجیئے، اس کے بعد جمال الدین خلعی کہتے ہیں کہ ایسا محسوس ہوا کہ میرے الفاظ میرے نہیں ہیں میں جب بولتا تھا توزبان سے مدحت ومنقبتِ اہلِ بیت کےسوا کچھ نہیں نکلتا تھا۔ اوربعد میں یہی دشمنِ اہلِ بیت ایسامحبِ اہلِ بیت علیہ السلام بنا کہ ان کے کہے ہوئے اشعار ااور منقبتیں سُن کر محبانِ اہلِ بیت جھوم جھوم جاتے ہیں، خلعی موصلی کے بہت سے اشعار روضہ امام حسین کے اطراف بھی کندہ کیئے گئے ہیں۔
جمال الدین خلعی نے کواب سے بیداری کے بعد کچھ اشعار کہے جو ان کے بقول خود بخود ان کی زبان سے ادا ہوئے ان کے اُس وقت کہےگئے اشعارکو شاعراہلبیت مہدی فلوجی حلی نے 100 برس قبل ایک مخمس میں جمع کردیا ،وہ دونوں بیت اس مخمس کے ساتھ اس طرح ہیں:
1۔ اراک بحیرة ملاتک عینا و شتتک الھوی بینا فبینا
2۔ فطب نفسا و قر باللہ عینا اذا شئت النجاة فزر حسینا
لکی تلقی الالہ قریر عین
3۔ اذا علم الملائک منک عزما تروم مزارہ کتبوک رسما
4۔ و حرمت الجحیم علیک حتما فان النار لیس تمس جسما
علیہ غبار زوار الحسین
ترجمہ اشعار:
1۔۔۔ ہم تم کو بہت زیادہ حیران دیکھ رہے ہیں کہ یزیدیت نےتمہارےپورے وجود کوگھیر لیا ہےاورہوس رانی نےتم کو اپنا غلام بنالیا ہے۔
2۔۔۔ پس تم آرام و سکون کا سانس لو اورتمہیں مبارک ہواگرتم اپنی نجات چاہتےہوتو امام حسین علیہ السلام کی زیارت کو جاوٴتاکہ خدا وند عالم سے اپنی کھلی ہوئی آنکھوں سے ملاقات کرسکو۔
3۔۔۔ جب فرشتے تم کو دیکھیں گےکہ تم نےامام حسین کی زیارت کا قصد وارادہ کر لیا ہےتو وہ تم کو امام حسین علیہ السلام کےزائرین میں شمارکریں گے۔
4۔۔۔اورجہنم تم پرحرام ہوجائے گی کیونکہ جہنم کی آگ اس شخص کو نہیں جلاتی جس پر امام حسین علیہ السلام کے زائرین کی گردو غبار پڑی ہو۔
روضہ امام حسین علیہ السلام پرخلعی کی حاضری اورالتجا کےبعد ان کی محبت و اخلاص میں بے پناہ شدت آئی اوراہل بیت علیہم السلام کی عنایت خاص بھی ان اوپرہوگئی۔