شام میں ترک فوجی کاروائی کےآغازپر9 اکتوبر کو امریکی صدرٹرمپ کی جانب سے ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کولکھا گیا غیرمعمولی اور غیر سفارتی الفاظ پر مشتمل خط منظر عام پرآ گیا ہے امریکی ٹی وی کے مطابق خط اتنا عجیب ہےکہ وائٹ ہاؤس سے اس کے حقیقی ہونے کی تصدیق کرانا پڑی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے خط میں ترک صدرکو لکھا کہ آپ ہزاروں افرادکو مارنے کا ذمہ دار نہیں بنناچاہتے، میں بھی ترک معیشت تباہ کرنے کا ذمہ دار نہیں بننا چاہتا۔ میں نے آپ کے کئی مسائل حل کیے، دنیا کونیچا نہ دکھائیں، آپ ایک عمدہ سمجھوتہ کر سکتے ہیں۔ امریکی صدر نے لکھا کہ کرد فوجی جنرل مظلوم عابدی آپ سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں، جنرل مظلوم وہ رعایتیں دینے پر تیار ہیں جو کبھی نہیں دیں، جنرل مظلوم کا مجھے بھیجا گیا خط بھی آپ کو ارسال کر رہا ہوں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے طیب اردوان کو تحکمانہ انداز میں کہا کہ اکھڑ اوراحمق مت بنو،انسانیت کے انداز سے اقدام اٹھایا تو تاریخ آپ کواچھےلفظوں سے یاد رکھےگی، اچھےاقدام نہ ہوئے توتاریخ آپ کو شیطان کی حیثیت سے یاد کرے گی۔ خط کے اختتام پر امریکی صدر نے ترک ہم منصب کو فون کرنے کا بھی عندیہ دیا۔ شام سے امریکی انخلا کے تین روز بعد تحریر خط پر 9 اکتوبر کی تاریخ درج ہے۔
اُدھر اطلاعات کے مطاابق ترک صدر طیب اردگان نے خط پڑھتے کے ساتھ ہی کسی دباو کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے اسے ردی کی توکری میں پھینک دیا تھا تاہم اب اطلااعات ہیں کہ ترک صدر جو پہلے امریکی نائب صدر اور وزیر خارجہ سے ملاقات کو یہ کہ کر مسترد کرچکے تھے کہ انھیں ترک ہم منصبوں سے ملاقات کرنی ہوگی لیکن اگر ڈونلڈ ٹرمپ آئیں گے تو ضرور ملاقات کروں گا ، اب اردگان امریکی نائب صدر سے ملاقات پر رضا مند دکھائی دیتے ہیں تاہم انھوں نے کرد ملیشیا سے مذاکرات کرنے کے امکانات کو یکسر مسترد کردیا ہے۔
دوسری جانب شام کے علاقے راس العین میں ترک فورسز اور کرد ملیشیا کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں، کرد ملیشیا سے معاہدے کے بعد شامی اور روسی فوج شام کے سرحدی قصبےکوبانی میں داخل ہو چکی ہے جب کہ ترک افواج بھی کوبانی کی سرحد پر جمع ہونا شروع ہو گئی ہے۔کر د ملیشیا نے داعش کے خلاف اپنی کارروائیاں روکنے کا اعلان کر دیا ہے جس سے شدت پسند کارروائیوں کے دوبارہ شروع ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔