جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ۔ ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو پاکستان کی سیاست میں ایک ایسا سیاستدان کہا جاتا ہے جنھیں وقت اور حالات کو اپنی موافقت میں موڑنے اور اس سے بھرپور استفادہ حاصل کرنے میں کمال حاصل ہے، تحریک انصاف کی کامیابی اور پیپلز پارٹی و مسلم لیگ ن جیسی جماعتوں سے اقتدار بہت دور کرنے کے بعد حکومت کی جانب سےکرپشن کے خلاف جو اقدامات شروع کیئے گئے اس کے مقابلے میں ان دونوں بڑی جماعتوں نے چاہنے کے باوجود کوئی ایسا قدم اٹھانے میں تاحال کامیابی حاصل نہیں کی جس سے حکومت کو پریشان کیا جاسکے ایسے میں مولانا فضل الرحمان کے احتجاج مارچ نے ساری اپوزیشن جماعتوں اور ان کے بڑے بڑے لیڈروں کو اپنے گرد جمع کرلیا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ اس بار مولانا کسی سمجھوتے کے موڈ میں نظر نہیں آتے ۔
احتجاجی مارچ کے حوالے سے مولانا سے ایک طرف حکومت نے مذاکرات کیلئے کمیٹی تشکیل دی ہے تو دوسری جانب اپوزیشن لیڈران بھی جوق در جوق ان سے ملاقاتیں کررہیں ہیں اسی سلسلے میں مولانا فضل الرحمان کی ملاقات شہباز شریف سے ہوئی جس میں ملکی سیاسی صورتحال اور آزادی مارچ سے متعلق تبادلہ خیال کیا گیا۔ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں ن لیگ کے صدر و قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف جو چند دن پہلے تک مارچ مین شرکت کے لیئے راضی نہیں تھے اچانک راضی بھی ہوگئے اور انھوں نے جے یو آئی کے آزادی مارچ میں بھرپور شرکت کا اعلان بھی کردیا ہے۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ مولانا کے آزادی مارچ سے متعلق میاں نواز شریف کی ہدایات ہمیں مل چکی ہیں، آزادی مارچ میں31 اکتوبر کو بھرپور شرکت کریں گے اور وہیں اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان بھی کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ملک کی تباہ کن صارتحال تحریک انصاف حکومت کی ناکامی کا ثبوت ہے، عمران خان بری طرح ناکام ہو چکے اور اپنی ناکامی کی ذمہ داری اداروں پر ڈالنا چاہتے ہیں لیکن قوم یکسو ہے کہ حکومت کو گھر جانا چاہیے اور نئے انتخابات ہونے چاہئیں۔شہباز شریف نے دعویٰ کیا کہ اگر (ن) لیگ کو حکومت ملی تو صرف 6 مہینے میں معیشت کو اپنے قدموں پر کھڑا کرکے دکھائیں گے۔
اس موقع پر سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ 31 اکتوبر کو آزادی مارچ میں شامل ہونے کے فیصلے پر شہباز شریف اور ان کی پارٹی کاشکریہ ادا کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ 27 اکتوبر کو کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا دن منائیں گے اور ہم نے 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا ہے، ہم تمام قائدین اور حزب اختلاف کی جماعتوں کی مشاورت سے آگے بڑھنا چاہیں گے اور اگلے اقدامات کا فیصلہ ہم مشترکہ طور پر کریں گے۔مولانا فضل الرحمان نے حکومت سے مذاکرات کے امکان کو ایک بار پھر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ایک طرف مذاکرات کیلئے کمیٹیاں تشکیل دے رہی ہے اور دوسری طرف گالیاں اور تضحیک آمیز رویہ رکھا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ تضحیک اور گالیاں، مذاکرات اور سنجیدگی یہ کبھی اکٹھے نہیں چل سکتے، اگر حکومت مذاکرات کیلئے سنجیدہ ہے تو پہلے استعفیٰ دے اس کے بعد اگلے اقدامات کیلئے مذاکرات کر سکتے ہیں۔
دوسری جانب لاڑکانہ کے ضمنی انتخابات میں جے یو آئی کی حمایت سے تحریک انصاف اور جی ڈی اے کے مشترکہ امیدوار کی کامیابی اور پیپلز پارٹی کی شکست کے باوجود چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ وہ حکومت کے خلاف احتجاج میں مولانا کا ساتھ دیں گے، اب جب سب ہی ساتھ ہیں تو مولانا فضل الرحمان کیوں مذاکرات کرکے چھوٹی موٹی مراعات پر راضی ہوں۔۔؟؟ شاید اس دفعہ حکومت کو کچھ ایسا کرنا پڑے گا جس سے سب کچھ سیٹ ہوجائے لیکن یہ کچھ ایسا کچھ بہت بڑے کی صورت میں ہو تو بات بن سکتی ہے ورنہ حکومت کو یہ یاد رکھنا ہوگا کہ مولانا کے تیور اب بدلے بدلے سے ہیں۔