پاکستانی سیاست کب کیا رخ اختیار کرلے کسی کو کچھ پتہ نہیں ہوتا، سیاستدان کب اپنے قول و فعل، وعدوں اور دعووں سے مُکر جائیں کل کے جانی دشمن کب بہترین حلیف بن جائیں،اور ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر گھومنے والے ایک دوسرے کو کاٹ کھانے دوڑیں کسی کو کچھ پتہ نہیں ہوتا نہ ہی ان پر کوئی پیشگوئی صادق آتی ہے، کیونکہ یہ اپوزیشن میں ہوں تو ہر جماعت کیلئے حکومتی فیصلے نامنظور اور حکومت میں آجائیں تو وہی فیصلے وہی اقدامات وہی بیانات ان کیلئے جائز ہوجاتے ہیں۔
زیادہ دور نہ جائیں کچھ سال قبل کی ہی بات ہے بیماری پرویز مشرف کی ہو یا آصف زرداری کی۔۔۔ مسلم لیگ ن کے رہنما ہر جگہ یہی کہتے نظر آتے تھے کہ یہ سب ڈرامے ہیں، ان کو ریلیف نہیں دیا جاسکتا، لیکن جب آج اپنے رہنما کی باری آئی توحکومت پر ریلیف نہ دے کر پتھر دل، ظالم حکمران سمیت سمیت سارے الزامات عائد کرنے میں ہر ایک آگے آگے ہے، پیپلز پارٹی والے بھی کسی سے کم نہیں رہے، چور ڈاکو سمیت کیا کیا القابات لیگیوں کو دیئے جاتے رہے اس کی تفصیل سب کو معلوم ہے، اسی طرح جو مولانا کل تحریک انصاف کے دھرنے کو ملک و قوم کے خلاف سازش قرار دیتے تھے وہ آج اپنے دھرنے اور آزادی مارچ کو جائز اور ملک و قوم کے مفاد میں قرار دیتے ہیں اور جو تحریک انصاف کل تک حکومتی اقدامات کے خلاف سڑکوں پر ہر آنے کیلئے ہر قسم کے اعلانات اور دھمکی آمیز رویہ و لہجہ اختیار کرتی تھی آج مولانا فضل الرحمان کا آزادی مارچ انھیں خلاف قانون نظر آرہا ہے۔
پاکستان کی سیاست کے رنگ اسی طرح بدلتے رہتے ہیں اور شاید آئندہ بھی بدلتے رہیں، ہم سب کو اسی ماحول میں رہنے اور پنپنے کی عادت سی ہوگئی ہے اب کوئی سانحہ سانحہ نہیں لگتا، کسی کی وعدہ خلافی بُری نہیں لگتی اور کسی کے عوام کیلئے اپنی قربانیوں کے دعوے پر ہنسی بھی نہیں آتی، ہم یہ بھی کہنے کی جرات نہیں کرتے کہ کوئی تو بتائے کہ اپنے دورِ حکومت میں آپ نے دودھ اور شہد کی کون سی نہریں جاری کردی تھیں جو آپ کی حکومت کی واپسی کی دعائیں کریں۔۔؟؟
اسی سیاسی منظر نامے کی تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ 3 سے 4 دن پہلے تک مولانا کے جس آزادی مارچ کی گرما گرمی سے ہر طرف تائید و تنقید اور تیاریوں و رکاوٹوں کا طوفان اٹھا ہوا تھا وہ اچانک نواز شریف کی شدید علالت پر ایک لحاظ سے ٹھنڈاہوچکاہے، جیل سے اسپتال منتقلی اور طبیعت خطرناک حد تک خراب ہونے کے بعد اگرچہ جمعے کو نواز شریف کیلئے ایک کیس میں ضمانت کی نوید بھی سنا دی گئی ہے، تاہم ان کی حالت مسلسل بگڑتی جارہی ہے۔ ایسے میں مسلم لیگ کی مرکزی قیادت کیوں اور کیسے مولانا کے مارچ پر توجہ دے گی یہ ایک بڑا سوال ہے۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری بھی پمز میں زیر علاج ہیں اور بقول شیخ رشید آصف زرداری نواز شریف سے زیادہ بیمار ہیں، اور پیپلز پارٹی خود بھی نواز شریف کی حالت اور ان کی ممکنہ بیرون ملک روانگی کے بنتے حالات کا بغور جائزہ لے رہی ہے اس تناظر میں دیکھا جائے تو مولانا فضل الرحمان جن دو بڑی اپوزیشن جماعتوں پر تکیہ کیئے ہوئے تھے اب ان جماعتوں کی شرکت مشکوک بھی ہوگئی ہے اور اگر وہ شریک بھی ہوئے تو شاید دوسرے درجے کے رہنما ہی مولانا کے ساتھ ہوں گے۔
اس معاملے نے یقیناً مولانا فضل الرحمان کو سوچنے پر مجبور کردیا ہوگا کہ کیا وہ واقعی آزادی مارچ کو کامیاب بنا سکیں گے جبکہ ان کی رضا کار فورس انصار الاسلام پر اسلام آباد میں داخلے پر پابندی لگ چکی ہے اور مدارس کے 21 سال سے کم عمر طلباء کی شرکت کو بھی حکومت نے ممنوع قرار دے دیا ہے،ایسے میں ایک طریقہ تو یہی ہے کہ مولانا فضل الرحمان 73ء کے آئین کے تناظر اور ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں اپنے احتجاجی آزادی مارچ کو ملتوی کردیں، یا پھر حکومتی تجویز پر پریڈ گراونڈ اسلام آباد تک محدود رہیں اور چند دن تقاریر کرکے پُرامن طور پر منتشر ہوجائیں یا پھر اپنی عزت و وقار کو داو پر لگا کر آزادی مارچ پر اڑے رہیں لیکن یہ طے ہے کہ اب مولانا کے آزادی مارچ کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے، بات صرف اعتراف کرکے اپنی راہیں متعین کرنے کی ہے، اور یہی وقت ہے جب مولانا کا کوئی بھی فیصلہ ان کے سیاسی مستقبل کی راہ متعین کرے گا۔
آخر میں یہ بات بھی تمام اپوزیشن رہنماوں کو ملحوظ خاطر رکھنی ہوگی کہ وزیراعظم عمران خان کے نواز شریف کو ریلیف دینے، ضمانت کیلئے مخالفت نہ کرنے، مریم نواز کو والد کے ساتھ رہنے کی اجازت دینے، اپنے وزراء کو بیان بازی سے روکنے، ساہیوال مقدمے میں مدعی بننے سمیت کئی اہم فیصلعں نے سیاسی منظر نامے کو بہت حد تک اپنے حق میں کرلیا ہے اب اپوزینش کے مخالفانہ رویئے اور آزادی مارچ کا ویسے بھی اخلاقی و سیاسی جواز باقی نہیں بچا ہے۔ باقی اب اپوزیشن جو بھی کرے گی وہی اس کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ ہوگا۔