نوازشریف کی طبیعت اورآزادی مارچ کے حوالے سے جس طرح حکومتی وزراء کا رویہ بدلا ہے اور معاملہ فہمی کا انداز اختیار کیا گیا ہےاس سے سب سے بڑا خود حکومت کو ہوا کہ وہ کم از کم فوری طورپرایک انتشار اور سراسیمگی کی خطرناک کیفیت سے باہر آگئی ہے جبکہ دوسرا بڑا فائدہ عوام کو ہوا جومسلسل گذشتہ 15 دنوں سے میڈیا پر دونوں جانب سے ہونے والی بیان بازی سے ہیجان میں مبتلا تھے۔
وزیراعظم عمران خان نے جب حکومتی وزراء کو یہ کہا کہ وہ نواز شریف کی ناسازی طبیت پر کوئی بیان نہیں دیں گے اورنہ اس امرکوایشو بنایا جائے گا ساتھ ہی حکومت نے آزادی مارچ کے رہنماوں سے مذاکرات کیلئے کمیٹی بنا کراس کی سفارشات پر عملدرآمد کرنےکا بھی قدم اٹھادیا، جس نے حکومت کے خلاف مزاحمت کی تحریک کے اثرات کو نہ صرف کسی حد تک کم کردیا بلکہ خود حکومت کیلئے بھی آسانیاں پیدا ہوگئیں ورنہ اگر بیان بازیاں اور مخالفتوں کےساتھ احتجاج کو صرف طاقت کے استعمال سے کچلنے کی باتیں کی جاتی رہتیں تو مولانا آزازی مارچ سےپہلے ہی کامیاب ہوجاتے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ سیاسی جماعتیں تو ہمیشہ چاہتی ہی یہ ہیں کہ کسی بھی معاملے کو ایشو بنایا جائے تاکہ عوام تک اس کی بازگشت پہنچے اور عوام بھی ایسے معاملات کے مزے لیتے ہیں لیکن یہ سب کچھ اس وقت ازخود ختم ہوجاتا ہے جب کسی ایک فریق کی جانب سے خاموشی یا معاملہ فہمی اختیار کی جائے اور ہولے ہولے، درپردہ اپنے اقدامات کیئے جائیں، یقیناً اس کے واضح نتائج حکومت نے بھی محسوس کیئے ہوں گے، نتیجہ یہ ہے کہ نواز شریف کی طبیعت پر بیان بازیوں کے ختم ہوجانے کےبعد شروع کے دو چار دن تک گرم رہنے والی خبریں اب مختصر ہوتی جارہی ہیں، مسلم لیگ ن کو بھی سمجھ آگیا کہ اب وہ اس معاملے کو مزید نہیں کھینچ سکتے، طبی سہولیات بھی بہترین مل رہیں، ضمانتیں بھی ہوگئیں، اب ان کا اعتراض کھوکھلا ہی ثابت ہوگا۔
بالکل اسی طرح اپوزیشن کی جانب سے آزادی مارچ کے اعلان کے ساتھ ہی حکومت وزراء نے جس طرح کے بیانات جاری کرنا شروع کیئےاس نےان کے اپنے لئے ہی مسائل پیدا کیئےاوراپوزیشن خاص طورپرمولانا فضل الرحمان کا ایک عام سا عمل خاص بن گیا اور ان کو فائدہ ملنا شروع ہوگیا، ایسا لگتا تھا کہ حکومتی مشینری میں کچھ عناصرایسے ہیں جو چاہتے ہیں کہ کسی بھی معاملے کو اچھال کراتنا بڑھا دوکہ دیگر معاملات کی جانب سے توجہ ہٹ جائے یا حکومت مین رہتے ہوئے اپوزیشن کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے رہو ،لیکن انھیں یہ نہیں پتہ کہ کئی دہائیوں قبل نیوٹن نے ایک قانون پیش کیا تھا کہ ہرعمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے اور کسی چیز کو جتنی طاقت سے دبایا جائے گا وہ اتنی ہی طاقت سے پلٹ کرواپس آتی ہے۔
لیکن یہ بات بہت دیر سے سمجھ آئی، خیر دیر آید درست آید کے مصداق تاخیر سے ہونے والے اس مفاہمانہ عمل نے بھی حکومت کو فائدہ ہی دیا ہے، اوراب مسلم لیگ ن بھی دب کر کونے میں بیٹھ چکی ہے، جبکہ آزادی مارچ اگرچہ اپنی آب وتاب سے اسلام آباد پہنچ گیا ہے لیکن اس مارچ کے قائدین کا وہ دم خم بھی نظرنہیں آرہا جوابتداء میں تھا کیونکہ پہلے حکومت ان پر شدت سے لفظی حملے کررہی تھی تو اپوزیشن اسی شدت سے جوابی حملے کررہی تھی لیکن اب حملوں کا عمل ختم تو ردعمل میں طاقت بھی ختم ۔ ایسے میں وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ کا بیان خوش آئند ہے کہ آزادی مارچ والے آئیں انھیں معاہدے کے مطابق کوئی رکاوٹیں نہیں ملیں گی بلکہ سہولیات بھی بڑے ہوٹلوں جیسی ہوں گی اس بیان نے اپوزیشن کے بہت سے تازیئے ٹھنڈے کردیئے ہیں۔
اب اس صورتحال میں عوام بھی خاطر جمع رکھیں، آزادی مارچ والے اسلام آباد میں جلسہ بھی کریں گے، دھرنا بھی دیں گےاورشہرکی سڑکوں پرگھومیں گے بھی لیکن اب اگر انھیں زیادہ اہمیت نہیں دی گئی اور ریڈ زون کے علاوہ کہیں بھی آنے جانے سے حکومت یا انتظامیہ نے نہیں روکا، جس کی وہ یقیناً کوشش کریں گے لیکن ان کی کوشش کو حکمت عملی اور طریقے سے ہی ناکام کردیا گیا تو دو چار دن بعد ان لوگوں نےپرامن طورپرواپس چلےجانا ہےاوراگر حکومت کی جانب سے پھر کوئی بھی غلطی دہرائی گئی یا غلط قدم اٹھایا گیا تو انھیں یہ سمجھا ہوگا کہ اب غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔