آپ میں سے ہر کسی نے بچپن میں کبھی نہ کبھی شادی کی بارات پر پھینکے جانے والے پیسے اٹھائیں ہوں گے ۔ اگر نہیں اٹھائے تو آپ کا بچپن نہایت ہی بورنگ تھا ۔اور اگر آپ نے اٹھائے ہیں تو یقینا آپ جانتے ہو گے کہ یہ چھوٹی سی حرکت آپ کو کتنی خوشی دیتی تھی ۔
کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ وہ خوشی کیوں ملتی تھی ؟ آپ میں سے کوئی بھی اتنا غریب نہیں ہوگا کہ جس کے والدین اسے جیب خرچ نہیں دیتے ہوں گے آپ میں سے کوئی بھی ان پیسوں سے امیر نہیں ہوسکتا تھا ۔ وہ صرف ایک دن کے لئے کچھ نیا کرنے کا مزہ تھا ۔ کیا خوش ہوتے وقت آپ نے یہ جاننے کی کوشش کہ اس عمل کا تعلق کسی روایت ، کسی مذہب سے تو نہیں ہے ۔
کبھی کسی دانشور نے کوئی ایسی تحقیق کرکے آپ کو بتایا کہ ایسا عمل ہندوانہ رسم و رواج سے ہے اور اس سے آپ کے عقیدے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے ۔نہیں نا ؟ تو پھر یہ واٹس ایپ پر بہت سے دانشور ہمیں کیوں ایسی تحقیق بھیج رہے ہیں کہ ہالووین بہت ہی خطرناک تہوار ہے ۔
پانچ سے دس سال کے بچوں کو کیا خبر کون سا تہوار کون سی قوم کا ہے ۔ آپ جس ملک میں رہتے ہیں وہاں کچھ ایسی رسم و رواج ہوتی ہیں جو ان لوگوں کے لئے عام ہوتی ہیں ۔اگر آپ کسی کی خوشیو ں کا حصہ نہیں بن سکتے تو ان کے لئے ناصح بھی نہیں بننا چاہیے آپ اگر یورپ میں موجود ہیں تو آج ہی بازار سے جا کر ٹافیاں اور چاکلیٹس خرید کر رکھ لیں ۔ کیونکہ کل یورپ میں ہالووین نام کا تہوار منایا جا ئے گا ۔
چھوٹے چھوٹے بچے عجیب و غریب لباس اور ماسک پہنے آپ کے گھر کے دروازے پر دستک دیں گے
اور آپ سے کہیں گے ”ٹرک آر ٹریٹ “ آپ دروازہ کھولنا اور انہیں ٹافیاں دے دینا ۔ ان کے چہرے پر خوشی دیدنی ہوگی ۔کسے بھی بچے کے چہرے پر خوشیاں بکھیرنے سے بڑی خوشی کیا ہوسکتی ہے ۔ وہ بچے آپ کی ٹافیوں یا آپ کی چاکلیٹس کے بھوکے نہیں ہیں ۔ انہیں یہ بھی نہیں پتہ کہ ان کا یہ تہوار کیوں منایا جا رہا ہے بلکہ اس تہوار کا کسی مذہب سے کوئی تعلق بھی نہیں ہے یاد رکھیں بچوں کے چہروں پرمسکراہٹیں بکھیرتے ہوئے آپ کے مذہب پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا ۔
الٹا ان بچوں کے والدین پر یہ تاثربہت اچھا ثابت ہوگا کہ مسلمان ان کے بچوں سے اخلاق سے پیش آتے ہیں یہ بات میں بڑے وثوق سے کہتا ہوں کہ گھر پر صدا دینے والے کو کچھ کھانے کو دینا بالکل بھی بدعت نہیں
محمود اصغر چودھری