آج ایک بار پھر بڑے ادب سے سب کی توجہ حالات کی نزاکت کی طرف دلوانا چاھتا ھوں۔ھمارے ادارے عجب کھیل کھیلتے ھیں اور اس طرح کھیلتے ھیں کہ جب تک بات آشکارہ ھو عوام اپنے ساتھ ظلم کر چکی ھوتے ھیں۔
زیادہ دیر کی بات نہیں آپ اسی انداز میں طاھر القادری کو گھن گرج کے ساتھ اسلام آباد میں نعرے لگاتے سنتے تھے اور پھر اچانک دھرنے ختم کرنے کے اعلان بھی۔
پھر اسی طرح ایک اور مولوی سڑکوں پر آیا اور اسلام آباد مفلوج کر کے رکھ دیا پھر اداروں نے مذاکرات کئے اور اپنا ھدف پورا کر کے اس بساط کو لپیٹ دیا اس مولوی نے دوبارہ بھی سر اٹھانے کی کوشش کی تو اداروں نے اسے اس انداز میں کچلا کہ ملک گیر تحریک تو کیا خود جیل کی یاترا کرنی پڑی اور پھر مکمل خاموش رھنے کی یقین دھانیوں پر اللہ جانے کیا رعایتیں دی گئیں
اب پھر وہ حکومت جو کپتان نے بنائی جس میں بقول یوتھیوں کے بڑے بڑے شیر اور شیرنیاں پنجروں میں بند کر دی گئیں وہ اتنی بے بس ھوئی کہ پورے ملک سے لاکھوں افراد دارلحکومت پہنچ گئے دھواں دھار تقاریر ھوئیں اور اب بھی موجود ھیں اور پی ٹی آئی۔۔محو تماشائے لب بام۔۔۔ کی تصویر بنی بیٹھی ھے
کیاآپ تمام دانش وروں کو سمجھ آ رھی ھے جو ذھنی عیاشی کے لئےدماغ استعمال کئے بغیر ضعیف پوسٹیں فارورڈ کر رھے ھیں کہ ادارے پھر کیا گیم کھیل رھے ھیں وہ کون سے ایسے مطالبات ھیں جو ایک پیج پر چلنے والی اور وردی کی ھر بات ماننے والی عمران خان کی حکومت تسلیم نہیں کر پا رھی اور اداروں کو فضل الرحمان کی آڑ میں یہ شطرنج کھیلنی پڑ رھی ھے۔
پس پردہ ھاتھ کیا صفائی دکھلانا چاہ رھے ھیں کہ فضل ڈرامہ اسلام آباد میں جاری ھے جس سے ایک طرف تو حکومت پر دباؤ ڈالا جا رھا ھے تو دوسری طرف ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی کردار کشی بھی کی جارھی ھے۔
فضل الرحمان وہ چھپکلی بن کر رہ گئے ھیں کہ اگر یہ دونوں بڑی پارٹیاں ان کےساتھ چلتی ھیں تو اداروں کی سیاست کا شکار ھو جاتے ھیں، نہیں چلتے تو اداروں کے پروپیگنڈے کا نشانہ بنتے ھیں کہ انھوں نے مولانا کو اکیلا چھوڑ دیا ھے۔
میڈیا پر غیر مرئی امداد سے جو لوگ اکٹھےکئے گئے وہ دکھا کر بتایا جاتا ھے کہ اصل اپوزیشن لیڈر تو فضل الرحمان ھے بلاول یا شہباز شریف نہیں۔ جب مخفی قوتوں کے اھداف پورے ھو جائیں گے تو فضل الرحمان واپس وہیں تحلیل ھو جائیں گے جہاں سے اٹھے اور اسلام آباد کی فضاؤں پر چھا گئے جیسے آج طاھر القادری کینیڈا میں تحلیل ھے۔
ہے کسی کو سمجھ یا آئی سمجھ کہ نہیں آئی۔۔۔
تحریر: سید علی شان حسین