اس موقع پر آپ نے اپنے خطاب میں توانائی، نشاط اور عزم و حوصلے سے لبریز نوجوان نسل کو ملک کے لئے ایک عظیم اور گرانقدر نعمت سے تعبیر کیا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے نوجوان نسل میں محرکات، انرجی اور فرائض کی انجام دہی کے لئے آمادگی جیسے عناصر کو سراہا اور فرمایا کہ ملک کو حقیقتاً ایسی نسل کی ضرورت ہے کیونکہ یہ نوجوان نسل دیندار ہے اور احساس ذمہ داری کے ساتھ صراط مستقیم پر گامزن رہ کر اپنے ملک کی تعمیر کرے گی۔

آپ نے ایرانی عوام کے ساتھ امریکہ کی دیرینہ دشمنی کی جانب اشارہ کیا اور  فرمایا کہ درندہ صفت امریکہ پہلے سے زیادہ کمزور، وحشی اور بے حیا ہو چکا ہے اور اسکے مقابلے میں ایران اپنی تمام تر قوت و طاقت کے ساتھ ڈٹا ہوا ہے اور اس نے اپنی خاص دلائل کی بنیاد پر امریکہ کے ساتھ مذاکرات کو مسترد کر کے ملک میں امریکہ کے اثر و رسوخ کا سد باب کیا ہے۔

آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے ملک میں ۲۸ مرداد ۱۳۳۲ ہجری شمسی مطابق ۱۹ اگست ۱۹۵۳ کو ایران میں حکومت کا تختہ الٹ دئے جانے کا ذکر کیا اور اسے ایران کے ساتھ امریکی دشمنی کا نقطۂ آغاز قرار دیا۔ آپ نے فرمایا امریکیوں نے یہ بغاوت کروانے کے بعد حتیٰ ڈاکٹر مصدق کی حکومت پر بھی رحم نہیں کیا جبکہ وہ حکومت امریکہ کو اپنی تکیہ گاہ سمجھتی تھی۔ امریکہ نے اس قومی حکومت کو سرنگوں کر کے ایک غلام، غیر خود مختار، بد عنوان اور آمر حکومت تشکیل دی اور اس طرح اُس نے ایرانی عوام کے ساتھ بد ترین دشمنی کی مثال قائم کی۔

آپ کا کہا کہ ڈاکٹر مصدق کی سرنگونی امریکہ پر بھروسہ کئے جانے کا نتیجہ تھا جس کے بعد امریکیوں نے پہلوی حکومت کے سہارے ایران کی مسلح افواج، تیل، سیاست، ثقافت، اقتصاد سمیت ملک کے تمام دیگر شعبوں پر اپنا تسلط جما لیا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ امریکیوں سمیت بعض لوگوں کی کوشش یہ ہے کہ وہ تاریخ میں رد و بدل کریں اور ایران سے امریکہ کی دشمنی کی وجہ اُس اقدام کو قرار دیں جس میں بعض طلبا نے تہران میں امریکی جاسوسی اڈے (سفارتخانے) میں گھس کر اس کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا، جبکہ امریکیوں نے ابتدا سے ہی ایران کے ساتھ دشمنی کی اور ظاہری دوستانہ منصوبوں کی آڑ میں ایرانی عوام کے ساتھ دشمنی برتی ہے اور یہ دشمنی ۲۸ مرداد کو حکومت کے خلاف انجام پانے والی بغاوت سے بالکل عیاں ہو گئی۔

آپ نے 1953 میں ہونے والی بغاوت کو ایرانی قوم کے لئے حقائق آشکار ہونے کا باعث قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ اس بغاوت کے دس سال کے بعد جب حکومت کے خلاف اسلامی و عوامی مزاحمت اور جد و جہد شروع ہوئی تبھی امام خمینی حمۃ اللہ علیہ نے عوام کے ذہن و دل کو پڑھتے ہوئے اس حقیقت کی جانب اشارہ کیا تھا کہ آج ایرانی قوم کے نزدیک امریکی صدر سے زیادہ منفور شخص کوئی اور نہیں ہے۔

آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے کہا کہ امریکہ کے رویے اور ماہیت میں ابتدا سے اب تک کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور وہ، آج بھی اُسی شر انگیزی و درندگی کا پیکر ہے بلکہ آج ماضی سے بڑھ کر وہ بین الاقوامی سطح پر آمریت، بے لگام تسلط پسندی، وحشی پن اور بے حیائی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔

رہبر انقلاب نے امریکہ سے وابستہ پہلوی دور حکومت میں پائے جانے والے ظلم و استبداد کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی انقلاب در حقیقت امریکہ اور اس سے وابستہ حکومت ہی کے خلاف تھا جس نے امام خمینی حمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں امریکہ سے وابستہ ایک بد عنوان شہنشاہی حکومت کا خاتمہ کر کے اسلامی جمہوریہ کو وجود بخشا۔

آپ نے بغاوت، پابندیاں، ملک میں قومیتی تعصب، علیحدگی پسندی اور فتنہ و فساد کو ہوا دینے کے علاوہ اقتصادی ناکہ بندی جیسے امریکی اقدامات کا ذکر کیا اور فرمایا کہ گزشتہ اکتالیس برسوں کے دوران امریکہ سے جو ہو سکتا تھا وہ اُس نے کیا اور انقلابی اصولوں کی بنیاد پر تشکیل پانے والے اداروں کے علاوہ خود اسلامی جمہوریہ کے خلاف مسلسل سازشیں کیں اور مختلف اقدامات کئے جبکہ اس کے مقابلے میں ہم نے بھی وہ سب کچھ کیا جو ہم سے ہو سکتا تھا اور اکثر مواقع پر ہم اپنے حریف کو مغلوب کرنے میں کامیاب رہے۔

آپ نے فرمایا کہ ملک میں امریکہ کے اثر و رسوخ کے سد باب کا ایک اہم طریقہ یہ ہے کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات کرنے سے پرہیز کیا جائے۔

آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے ایران میں پائی جانے والی امریکی نفرت و مخالفت کو مستحکم منطق و استدلال پر استوار قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ یہی عاقلانہ طور طریقہ ملک میں امریکی اثر و رسوخ کو لگام دے گا، دنیا والوں کے سامنے ایران کی حقیقی قوت و طاقت کو عیاں کرے گا اور ساتھ ہی اسکے مد مقابل یعنی امریکہ کی ظاہری ہیبت کو خاک میں ملا دے گا۔

آپ نے امریکہ سے مذاکرات کرنے کے خواہاں افراد کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ لوگ امریکہ کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کو ملک کی تمام مشکلات کا حل جانتے ہیں، یہ ان کی سو فیصد بھول ہے اور امریکہ کے ساتھ گفتگو کرکے کوئی نتیجہ حاصل نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ وہ کسی بھی قیمت پر مذاکرات کرنے والوں کے ساتھ رعایت سے کام لینے والا نہیں ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ امریکہ ایران کو مذاکرات کی میز پر بٹھا کر دنیا کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ اس کا دباؤ اور ایران پر اس کی پابندیاں کارگر ثابت ہوئی ہیں جس کے سبب ایران نے اس کے سامنے گھٹنے ٹیک دئے ہیں اور نتیجتاً وہ مذاکرات کی میز پر آ بیٹھا ہے۔

آپ نے اپنے خطاب کے اختتام پر ملکی مشکلات کو خود ملکی توانائیوں کے  ذریعے حل کرنے پر زور دیا اور فرمایا کہ ہمارے ملک میں بے شمار توانائیاں موجود ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران دشمن کی منشا کے برخلاف بلطف خدا تمام تر موجودہ مشکلات سے سربلندی کے ساتھ گزر جائے گا۔