محمد احسن (مسافر شب ) کی وال سے
آج یعنی 11.11.19، شام مغرب سے کچھ پہلے سیارہ عطارد کا ٹرانزِٹ شروع ہوا۔ ٹرانزِٹ کو سورج گرہن کی ایک نہایت چھوٹی سی قسم سمجھا جا سکتا ہے، یعنی سورج چُھپتا نہیں، بس ننھا مُنا سیارہ اُس کے آگے سے گزر
رہا ہوتا ہے۔ سورج کی ہنسی سی نکل جاتی ہے۔
اہلِ پاکستان میں کچھ باذوق لوگوں نے محفوظ طریقے اپناتے ہوئے سورج کی جانب اپنی دوربینیں کِیں اور سورج کے ایک کنارے سے ننھا مُنا عطارد سورج میں داخل ہوتے دیکھا۔
سورج کو دیکھنے کے لیے کچھ فلٹرز کی ضرورت ہوتی ہے، براہِ راست کبھی نہیں دیکھنا چاہیے ورنہ آپ کی آنکھوں کی ہمیشہ کے لیے ہنسی سی نکل جاتی ہے۔
عطارد نے تقریباً ساڑھے پانچ گھنٹے میں پورا سورج عبور کر کے دوسرے کنارے سے باہر نکل جانا ہے۔ مطلب یہ کہ ہمارے علاقے میں تو سورج ڈوب چکا ہے مگر اِس وقت بحر ایٹلانٹِنک اور مشرقی امریکہ میں دِن دیہاڑہ ہے۔ وہاں لوگ نہ صرف دیکھ رہے ہیں بلکہ ویب کاسٹ بھی نشر کر رہے ہیں۔
سولر ٹرانزِٹ فلکیات میں ایک ایسا واقعہ ہوتا ہے جو رات کی بجائے دِن میں دیکھنا ہوتا ہے۔ ویسے تو کئی ارب برس سے ہر زمینی 88 دنوں میں سیارہ عطارد اپنا ایک مدار مکمل کرتا ہے کیونکہ زمین کے مقابلے میں سورج کے بہت زیادہ قریب ہے، ملتان سمجھ لیں۔ مگر کبھی کبھار زمین عطارد اور سورج ایک لائن میں آ جاتے ہیں۔ یوں اہلِ زمین کو سورج کی سطح پر سیاہ عطارد ریگنتا نظر آتا ہے۔ اسی کو ٹرانزِٹ کہتے ہیں۔ عام نگاہ میں زمین پر دھوپ کی شدت میں کمی محسوس نہیں ہوتی مگر حقیقت یہ ہے کہ سائنسی نکتہ نگاہ سے دھوپ میں غیر محسوس سی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ دوسرے نظام ہائے شمسی میں ماورائی سیارے یونہی دریافت ہوئے ہیں ۔
عطارد ٹرانزِٹ کا یہ منظر اب 2032ء میں دوبارہ دیکھا جا سکے گا۔ اُس وقت تک آپ کے بچوں کی بھی شادیاں ہو چکی ہوں گی اور اُنہیں آٹے دال کے بھاؤ معلوم ہو چکے ہوں گے۔ جانے اُس وقت پاکستان میں کس کی حکومت ہو گی اور پٹرول کا کیا ریٹ ہو گا۔ اور وزیراعظم خوبصورت ہو گا یا نہیں۔