تحریر ۔۔۔ رابعہ رزاق
پھولن دیوی کوئی افسانوی کردار نہیں بلکہ وہ ہندوستان میں نچلی ذات پر جبر ، عورت ذات کی ذلت آمیز زندگی اور طبقاتی نظام کے خلاف بغاوت کی ایک ایسی داستان ہے جسے لوگ آج تک نہیں بھولے ۔
پھولن دیوی اترپردیش میں 1963 میں ایک نچلی ذات کے گھر میں پیدا ہوئی۔
جہاں زندگی کے مسائل اور مصائب وہی تھے جو باقی گھروں میں تھے ، غربت اوربے بسی کے ساتھ ذلت آمیز زندگی کا سامنا روز ہی کرناپڑتا تھا ۔ باپ نے اس کی شادی ایک گاۓ اور بائیسکل کے عوض 40 ساله پتی لال سے کردی جس کی پہلے سے دو بیویاں بھی تھیں ۔ دن بھر سوتنیں تشدد کرتیں اور رات کو شوہر غصہ نکالتا۔
اک دن سوتنوں نے مار پیٹ کر گھر سے نکال دیا تو پھولن دیوی کو دو ٹھاکر اٹھا کر لے گئے جنھوں نے اسے جی بھر جنسی تشدد اور زیادتی کا نشانہ بنایا ۔ خوش نصیبی سے ایک دن کوٹھڑی کا تالا کھلا ره گیا اور پھولن دیوی بھاگ کر چمبل کی گھاٹیوں میں روپوش ہو گئی ۔ جہاں وہ بابا مستقیم کے ڈاکوؤں کے گروہ کا حصہ بن گئی جن کی دهشت سے ٹھاکر بھی خوف کھاتے تھے۔
پھولن دیوی نے اپنے انٹرویو میں بتایا تھا که اپنے وجود میں جلتی ھوئی انتقام کی آگ کی عارضی تسکین کے لیے سب سے پہلے مردوں کی طرح گالیاں دینا سیکھا. پھر گھڑسواری اور رائفل چلانا سیکھی۔
بابا مستقیم پولیس کے هاتھوں مارا گیا اور پھر پھولن کا محبوب وکرم اس گروه کا لیڈر بنا ۔یہ پھولن کی زندگی کا سنہرا دور تھا لیکن اس کی خوشیاں زیادہ دن تک اس کے ساتھ نہ رہیں ۔ وکرم کو اس کے مخالفین نے مار دیا اور ڈاکوؤں نے پھولن دیوی کو اپنا لیڈر مان لیا وہ ڈاکوؤں کی ملکہ کہلانے لگی اس کے اندر کے نسوانی جذبات کی موت تو شاید اسی دن ہو گئی تھی جب اس کا گینگ ریپ ہوا تھا لیکن وکرم کی وجہ سے جو زندگی میں رعنائی محسوس ہوتی تھی وہ بھی اس کی موت کے بعد ختم ہو ئی اور پھولن دیوی کی وحشت اس علاقے پر راج کرنے لگی وہ اپنی
ذات کے لیے مسیحا تھی اور اونچی ذات کے خوف اور وحشت کی علامت ۔۔۔
پھولن دیوی نے1981 میں 24 ٹھاکروں کو حویلیوں سے گھسیٹ کر باهر نکالا اور فائر کھول دیا تھا جس میں سے 22 ٹھاکر مارے گئے تھے ، یہ وہ انتقام تھا جو اونچی ذات کے ہندوں کے خلاف اس کے دل و دماغ میں مدتوں سلگتا رہا جس کا انجام بالاخر بائیس ٹھاکروں کی موت پرہوا ۔
پھولن کا کہنا تھا کہ وه صرف غریبوں پر ظلم کرنے والوں کو لوٹتی تھی جو غریبوں کی لڑکیاں اٹھا کر لے جاتے اور نیچی ذات والوں کو اچھوت سمجھتے تھے .اس کی جدوجهد سے متاثر ہو کر اک امریکی مصنف نے اسے بھارت کی رابن هڈ کہا ۔
پھولن دیوی نے پولیس اور سرکاری مشینری کو اس قدر زچ کیا که اندرا گاندھی نے حکام کواختیار دیا که اگر پھولن کو گرفتار نهیں کرسکتے تو اس سے کوئی ڈیل کر لو۔
پھولن دیوی نے 1983میں اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کر دیا اور 1994 تک وہ جیل میں رهی .اور پھر 1994میں پھولن دیوی نے لوک سبھا کی رکنیت حاصل کی۔ 1998 میں شکست کا سامنا کرنے کے بعد اگلے سال ایک بار پھر وہ رکن پارلیمان بنی ۔
جیل سے آزادی کے بعد دنیا کے تقریبا 80 ممالک نے اسے مدعو کیا اور 20 ممالک نےنوبل پرائز کے لیے نامزد کیا لیکن بھارتی حکومت کے ٹھاکروں نے اسکی نامزدگی کو سرد خانے میں ڈال دیا۔
پچیس جولائی 2001 کو دوپہر ایک بج کر بیس منٹ پر پھولن دیوی کو اس کی رهائش گاہ کے سامنے جب وہ اپنی گاڑی سے اتر رہی تھی تین نقاب پوشوں نے گولی مار کر هلاک کر دیاتھا ۔ پھولن دیوی اس وقت بھارتی پارلیمان کی رکن تھی ۔ شمشیر سنگھ رانا کو دهلی میں پھولن دیوی کے قتل کے کچھ هی روز بعد گرفتار کر لیا گیا تھا اور پولیس کے مطابق اس نے اقرارِ جرم بھی کر لیاتھا۔
شمشیر سنگھ کا کهنا تھا کہ اس نے پھولن دیوی کے ہاتھوں 1981 کے ویلنٹائن ڈے کے موقع پر اعلیٰ ذات کے 22 افراد کی ہلاکت کا بدله لیا۔
پھولن دیوی نے اس قتل کے عام کے متعلق کہا تھا کہ که اس نے اعلیٰ ذات کے ھندوؤں کے هاتھوں اپنے ساتھ هونے والی اجتماعی زیادتی کا بدله لیا تھا ۔
پھولن دیوی نے بھی بے شمار قتل کیے تھے لیکن اس کے قتل پر بھارت میں سوگ کا سماں تھا وہ نچلی ذات والوں کے لیے دیوی سمان تھی ۔ بھارت کے 50 کروڈ سے زائد مفلسی کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے نچلی ذات کے هندوؤں اور اقلیت کے حقوق کی پامالی اور عزت نفس کے نام پر قتل عام کے خلاف آواز بلند کرنے والی رکن پارلیمنٹ پھولن دیوی کو موت کے گھاٹ اتار کرسامراج نے اپنے خلاف اٹھنے والی آواز کو ہمیشه کے لیے خاموش کر دیاجس کا غم طبقاتی جنگ میں پسنے والے بھارتی ہمیشہ مناتے رہیں گے ۔
پھولن دیوی پر بے شمار کتابیں لکھی گئیں جن میں سب سے مشهور مصنفه مالا سین کی کتاب بینڈت کوئن ہے جس کا 27 زبانوں میں ترجمه ھوا اور نامور فلمساز شیکھر کپور نے اس په "بینڈٹ کوئین” کے نام سے ہی فلم بنائی۔
خود پھولن نے مائی لائف کے نام سے کتاب لکھوائی جسے فرانسیسی مصنفه نے بھارتی مترجم کی مدد سے تحریر کیا۔جس کی سات لاکھ کاپیاں دنیا بھر میں فروخت ہوئی ۔