ابا جی کے حجرے سے جڑی کچھ یادیں
تحریر : امجد شریف
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب زندگی میں راحت اور حقیقت کے سارے رنگ موجود تھے.تب زندگی مشکل تو تھی مگر افراد کا ایک دوسرے پر انحصار زیادہ تھا، معاشرے میں برادریوں کی شکل میں اپنا وجود اور موثر موجودگی ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی تھی اس لئے افراد کے مابین اتحاد و اتفاق کےبھی زبردست مظاہرے دیکھنے کو ملتےتھے.اب تو اس محبت کی جگہ ہمدردی نے لے لی ہے۔ جو قریب ہوتے ہیں اُن کا احساس نہیں ہوتا اور جو دور ہوتے ہیں ان سے رابطہ رہتا ہے۔
ہماراگھر کھائیگلہ بازار سے ایک کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ گھر سے تین سو میٹر کے فاصلے پر ابا جی نے دوکمروں کا ایک حجرا بنایا ہوا تھا۔جہاں زندگی اپنے سارے رنگوں کے ساتھ موجود تھی،محبت کے قہقہوں سے آباد اس حجرے میں ہر شام میلہ لگتا تھا۔مذہب سے سیاست تک اور سیاست سے لے کر معاشرت تک ہر موضوع پر گفتگو ہوتی تھی،چائے کے کئی دور چلتے، میں اس میزبانی کو خوب انجوائے کرتا کچھ باتیں اُس وقت میری سمجھ میں آ جاتی اور کچھ اوپر اوپر ہی سے گزر جاتی، آگے کچھ لکھنے سے پہلے ایک بات کی وضاحت کر لوں کہ یہ حجرا پشتون معاشرے کی روایت ہے لیکن اب پشتونوں میں بھی حجرے اپنی پرانی شکل میں محفوظ نہیں رہے۔ صبور زلابی میرے پشتون دوست ہیں۔ وہ مجھے بتارہے تھے کہ”علامتی طور پر حجرے اب بھی موجود ہیں لیکن ان کی موثریت پہلے کی طرح باقی نہیں ہے البتہ بہت سارے گاوں ایسے ہیں۔جہاں غمی و شادی کی تقریبات اب بھی حجروں میں ہی ہوتی ہیں”۔اب تو ہمارے ہاں بھی شادی بیاہ اور خوشی کی دیگر تقریبات شادی ہال یا پھر بڑے ہوٹلوں میں ہی ہوتی ہیں ۔
ابا جی اپنی اس بیٹھک کو حجرے ہی کانام دیتے تھے۔ یہی وہ زمانہ تھا۔جب بیرسٹر سلطان محمود چودھری نےاپنے والد کی جگہ آزاد مسلم کانفرنس کی کمان سمبھالی تھی اور وہ پورے آزادکشمیر میں اسے منظم کرنے کے لیے ہر ضلع کا تفصیلی دورہ کر رہے تھے۔ ابا جی نے بھی آزاد مسلم کانفرنس سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا،ضلع پونچھ میں سلطان کو خوش آمدید کہنے والے اقابرین میں وہ پیش پیش تھے۔ اب بھی اُن کے دوستوں کے نام میرے حافظے میں درست طور پر محفوظ ہیں۔ سردار انور خان مرحوم آف منگ ،سردار یاسین خان مرحوم آف ہورنہ میرہ ، سرداررشیدخان مرحوم آف پوٹھی بالا،سردار اسحق خان مرحوم آف کھڑک،سردار شوکت خان مرحوم آف برمنگ کھائیگلہ اللہ تعالی ان سب کو اپنی رحمت کے سایے میں رکھے،ان کے علاوہ سردار نثار خان جن سے ہم بھائیوں کااب بھی رابطہ ہے یہ وہ لوگ تھے،جو اباجی کی سیاسی زندگی کے ہم سفرتھے۔ اُن کے ذاتی اور قابلِ اعتماد دوستوں میں سردار عبدالکریم خان مرحوم آف منگ، عبدالقیوم آف برمنگ کے علاوہ ہمارے پڑوسی خورشید عرف لالہ مکھن جنھیں ابا جی کا سیکریڑی بھی کہا جاتا تھا۔
جب بیرسٹرسلطان محمود نے سیاسی کلابازیاں کھانا شروع کی تو ابا جی نے اپنی سیاسی سرگرمیاں ترک کر دی، مجھے یاد ہے کہ ابا جی نے اُس دوران بیرسٹر سلطان محمود کو ایک خط کہا اور بیرسٹر صاحب کے سیاسی فیصلوں پر اپنے تحفطات کا اظہار کرتے ہوئے آخر میں وہ تاریخی جملہ لکھا جس کی لاج میں آج تک نبھا رہا ہوں، اباجی کے خط کی وہ تحریر مجھے آج بھی یاد ہے۔ جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ” میں اب بھی اپنے آپ کوآزاد مسلم کانفرنس کاادنی کارکن تصور کرتا ہوں اللہ تعالی آپ کو عروج بخشے،اگر ہمارے درمیان رابطہ نہ بھی رہا توبھی میری طرف سے ہمدردیوں کے پل ہی باندھے جائیں گے،میں کبھی نفرتوں کے جال نہیں بچھاوں گا”۔ اُس کے بعد ابا جی کا کبھی بیرسٹر سلطان محمود سے رابطہ نہیں ہوا۔
اِن ہی دنوں سردارحلیم خان کا ابا جی سے تعارف ہوا، دراصل حلیم صاحب کو میجر عبدالغفار خان ابا جی سے ملانے لے گے تھے۔ حلیم صاحب میرے بھی محسن اور مربی ہیں،وہ اور اباجی رات دیر تک مذہب اورسیاست پر گفتگو کرتے رہتے، یہ سلسلہ ایک طویل عرصے تک چلتا رہا۔ ابا جی حلیم صاحب کے اصرار پر ایک بار مظفرآباد کسی کانفرس میں بھی شریک ہوئے تھے۔ مولانا کے لٹریچر اور جماعت کے نظم اور طریقہ کار سے بہت متاثر تھے۔ میرا غالب گمان یہ ہے کہ اگر وہ کچھ دور مزید زندہ رہتے تو وہ اپنی باقی ماندہ زندگی جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم میں رہ کر ہی گزارتے،لیکن یہ اللہ کو منظور نہیں تھا۔البتہ اس بات کا انھیں اطیمنان تھا کہ میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوں، امی جی کے سفرِآخرت کے بعد وہ خود کو بہت اکیلا محسوس کر رہے تھے۔ بلآخر 21 نومبر 1991ء امی جی کی وفات کے پانچ ماہ اورسترہ دن بعد وہ رات بھی آئی ، جو آئی اور میرے دل پر ہمیشہ کے لئے ٹھہر گئی۔۔۔۔!
آج ابا جی کی اٹھائیسویں برسی ہے۔ اس موقع پر، ان کااور ان کے حجرے سے جڑی یادوں کا ذکر کرتے ہوئے،پیچھے مڑ کر دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں، تو مجھے وہ شخص جو میرا باپ بھی ہے،اپنی شخصیت کی سادگی، بے نیازی، انسان دوستی اور حِلم کی بناپر، اتنا مختلف، اتنا منفرد لگنے لگتا ہے، کہ میں حیرت سے سوچتاہوں کہ اس دنیا میں اتنا صاف ستھرا انسان،خود کوآلودہ کئے بغیر کیسے اتنی آن، بان اورشان سے جی گیا۔؟ ان کی دوستی ہر عام وخاص سے تھی، میں نے اُن کی وفات پر ہر آنکھ کو اشک بار دیکھا، ہماری اُن کے حجرے سے جڑی کچھ تلخ یادیں بھی ہیں۔ اگرچہ وہ فراموش نہیں ہو سکتی لیکن اُن کا ذکر بھی ہم بہن بھائی اپنی زبان پر نہیں لانا چاہتے ، ابا جی اکثر آسمان پر جگمگاتے تاروں سے رات کی چاندنی باتیں کیا کرتے تھے۔ آسمان پر چمکتے ستارے اُن کے دوست بھی تھے اور ہم راز بھی، زندگی کی تلخ حقیقتوں کا انھوں نے مردانہ وار مقابلہ کیا،انہوں نے اپنے دوستوں کو کبھی اپنے کسی ذاتی مقصد یا فائدے کے لئے استعمال نہ کیا، زندگی سے کچھ زیادہ کی طلب تھی نہ خواہش، سادہ غذا، سادہ لباس، سادہ بودوباش، عوامی سطح پر زندہ رہنا انھوں پسند تھا اور اسی جذبے کے ساتھ اپنی آخری سانس تک وہ جیے،میں اُن کی سماجی خدمات کا اعادہ کر کے ان کے اجر کو ضائع نہیں کرنا چاہتا بس دعا ہے کہ ہمیں اپنے اباجی کے نقشِ قدم پر چلنےکی توفیق عطا ہو،وہ اپنے حجرے سےسو میڑ کے فاصلے پر اپنی شریکِ حیات کے پہلو میں ابدی نیند سو رہے ہیں،اللہ تعالی تاقیامت میرے والدین کی قبروں کو ٹھنڈا رکھے۔