پاکستان میں طلبہ یونین کی بحالی کے حق میں اٹھنے والی آوازوں میں اب تیزی آتی جا رہی ہے۔ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی طلبہ تنظیموں نے انتیس نومبر کو طلبہ یونینز کی بحالی کے حق میں ’طلبہ یکجہتی مارچ‘ کا اعلان کیا ہے۔
نوجوانوں کا انداز ہمیشہ الگ ہوتا ہے اور تھکے ہوئے ذہن اکثر اسے پسند نہیں کرتے
جس وقت چیئرمین بلاول بھٹو سلیکٹڈ وزیراعظم کے بیان کا جواب دیتے ہوئے کہہ ر ہے تھے کہ میں نہ لبرل ہوں، نہ کرپٹ اور نہ ہی منافق ہوں۔
"میں ترقی پسند اور نظریاتی ہوں”
اسی وقت لاہور میں فیض میلے میں اسی طرح کی صدا نوجوان بلند کر رہے تھے
نئی سیاسی قیادت کی تربیت گاہ
طلبہ یونینز نے پاکستان کی قومی سیاست کو جو سیاسی رہنما دیے ان کی فہرست کافی طویل ہے تاہم ان میں جاوید ہاشمی، شیخ رشید احمد، مشاہد اللہ خان، احسن اقبال، لیاقت بلوچ، قمر الزماں کائرہ، اعجاز احمد چوہدری، اور خواجہ سعد رفیق کے علاوہ مرحوم جہانگیر بدر بھی شامل تھے۔
پاکستان میں طلبہ یونین کی بحالی کے حوالے سے دو طرح کےنقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں۔ ایک حلقے کا خیال ہے کہ طلبہ یونینز نوجوانوں میں سیاسی شعور اجاگر کرنے، ان کی قائدانہ صلاحیتیں نکھارنے کے ساتھ ساتھ طلبہ اور انتظامیہ میں بامقصد مکالمے کا باعث بنتی ہے۔
جبکہ مخالفین کی رائے میں طلبہ کی تعلیمی نظام کونقصان پہنچتا ہے۔ وہ تشدد اور غیر تعلیمی مشاغل میں الجھ کر اپنا تعلیمی کیریئر خراب کر بیٹھتے ہیں۔
پاکستان کے فوجی حکمران جنرل ضیاالحق نے انیس سو چوراسی میں طلبہ یونینز پر پابندی لگا دی تھی۔ بے نظیر بھٹو نے انیس سو اٹھاسی میں برسراقتدار آنے کے بعد اس پابندی کے خاتمے کا اعلان کیا تھا، لیکن اس اقدام کو انیس سو نوے میں عدالت میں چیلنج کر دیا گیا تھا۔ انیس سو ترانوے میں عدالت نے ضابطہ اخلاق سمیت کچھ شرائط کے ساتھ طلبہ یونینز کے انتخابات کی بات کی تھی۔ لیکن تاحال طلبہ اپنے جمہوری حق سے محروم چلے آ رہے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ گزشتہ دوراقتدار کے آغاز پر اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی طلبہ تنظیموں پر عائد پابندی اٹھانے کا اعلان کیا تھا لیکن وہ بھی اپنا یہ وعدہ وفا نہ کرسکے۔
طلبہ یکجہتی مارچ کو منعقد کرنے والی آرگنائزنگ کمیٹی کے رکن حسنین جمیل فریدی نے بتایا کہ طلبہ کو تعلیمی اداروں میں داخلے کے وقت سیاسی سرگرمیوں سے دور رہنے کی یقین دہانی پر مبنی ایک حلف نامہ لیا جاتا ہے۔ یہ آئین کے آرٹیکل سترہ کے منافی ہے، جو شہریوں کو ایسوسی ایشن بنانے کی اجازت دیتا ہے۔