لاہور میں انتظامیہ کی جانب سے طلبہ یکجہتی مارچ کے بعد چھ افراد کے خلاف نقص امن، لاؤڈ سپیکر ایکٹ کی خلاف ورزی، ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیز اور اشتعال انگیز تقاریر جیسے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
ایف آئی آر اتوار کو سول لائنز پولیس سٹیشن کے سب انسپیکٹر محمد نواز کی مدعیت میں درج کی گئی ہے۔
طلبہ کے خلاف درج ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ 29 نومبر کو ساڑھے چار بجے مال روڈ پر ایک ریلی جس کی قیادت عمار علی جان، فاروق طارق، عالمگیر وزیر، اقبال لالہ اور کامل خان کر رہے تھے، جبکہ دوسرے شرکا کی تعداد تقریباً اڑھائی سو سے تین سو تھی۔ ریلی نے فیصل چوک پہنچ کر زبردستی دونوں اطراف کی ٹریفک بلاک کر دی اور سٹیج بنا کر بذریعہ لاؤڈ سپیکر تقریریں شروع کر دیں۔
ایف آئی آر کے مطابق ’مقررین ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیز اور اشتعال انگیز تقاریر اور نعرہ بازی کر کے طلبہ کو اکساتے رہے جس کی موبائل فون سے ریکارڈنگ کی گئی ہے۔ مقررین کی شناخت بذریعہ کیمرہ اور موبائل فون کے ذریعے کی جا سکتی ہے۔ جن کو متعدد بار بذریعہ میگا فون منع کیا گیا مگر وہ باز نہ آئے۔ مسمی عالمگیر وزیر وغیرہ کے خلاف رپورٹ نمر 40 مورخہ 30، نومبر 2019 کو روزنامچہ میں درج کی گئی۔‘
واضح رہے کہ ایف آئی آر میں نامزد اقبال خان کوئی طالب علم نہیں بلکہ مردان یونیورسٹی میں توہین رسالت کے الزام پر قتل کیے جانے والے طالب علم مشعال خان کے والد ہیں جو طلبہ مارچ میں شرکت کے لیے خصوصی طور پر لاہور آئے تھے جبکہ ایک اور نامزد ملزم فاروق طارق ایک عمر رسیدہ، سیاسی و سماجی رہنما، مصنف اور ناشر ہیں جو طلبہ سے اظہار یکجہتی کے لیے مارچ میں شریک ہوئے۔ اسی طرح ایک اور نامزد ملزم عمار علی جان لاہور کے ایف سی کالج یونیورسٹی کے استاد ہیں۔