پاکستان ملایشیا تعلقات بہت گہرے تصور کیے جاتے اور پاکستان کے حکمران بھی اپنے ملک میں ملایشین ماڈل لانے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ ملایشیا میں شیعہ مسلمان کھل کر اپنے مذہب کی ترویج اور پیروی نہیں کر سکتے۔
فری ملایشیاء ٹوڈے کے مطابق ملک میں شیعہ اقلیت کے خلاف تعصبانہ اقدامات کا سلسلہ 2011 سے شروع ہوا جس میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔
حالیہ دنوں میں متعدد اہل تشیع کے افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
ملک میں شدت پسندی تکفیری عناصر کی سرگرمیوں کی وجہ سے ملک میں جاری دو عشرے سے شیعہ پروگراموں کو رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
اہل تشیع «سید محمد» عاشور کے دن امام بارگاہ میں نماز کی ادائیگی میں مصروف تھا جب ان پر بیس پولیس اہلکاروں نے حملہ کا اور ان کو تشدد کا نشانہ بنایا۔
انکا کہنا تھا کہ حملے سے خواتین اور بچے بری طرح خوف زدہ ہوگئے تھے۔
سید محمد اور سات دیگر افراد کو گرفتار کیا گیا جنپر مقدمات قایم کیے گیے اور سزا کی صورت میں انہیں تین سال کی قید ہوسکتی ہے۔
ایک اور واقعے میں کوالا لمپور میں «کامل ظهیری عبدالعزیز» اور بیس دیگر اہل تشیع کو دعا کی محفل سے گرفتار کیا گیا۔
ملایشیاء میں کہا جاتا ہے کہ ایک سے پانچ لاکھ کے درمیان شیعہ افراد موجود ہیں۔
لیکن کیا پاکستان نے اس بارے میں کبھی ملایشیا سے کہ سکتا ہے کہ شیعہ مسلمانوں کو مذہبی آزادی کی اجازت دی جائے؟