پاکستان آرمی ایک ادارہ جس کا چیف بنتا ایک اعزاز . پاکستان آرمی میں ایک ایسا چیف بھی آیا جس کا تعلق انجینئرنگ کور سے تھا . اور اس کی مدت اس کی تقرری کے بعد صرف چند منٹ رہی . اتنی مختصر مدت کا انجینر آرمی چیف دنیا میں شائد ہی کہیں کوئی اور آیا ہو ۔
یہاں تک کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے اس گھڑی دو گھڑی کے آرمی چیف کے تو بیجز بھی مارکیٹ سے خرید کر جلد بازی میں لگا دیے گئے ۔بات کچھ زیادہ پرانی نہیں ہے نواز شریف دوتہائی اکثریت سے وزیراعظم بن چکے تھے ۔
جنرل مشرف اس وقت آرمی چیف تھے ۔ کارگل کا واقعہ ہو چکا تھا ۔ وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل مشرف کے درمیان کھچاؤ پیدا ہو چکا تھا ۔ نواز شریف کارگل کی ناکامی کو بنیاد بنا کر آرمی چیف پر اپنا دباؤ بڑھا کر انہیں اپنا مطیع بنانا چاہتے تھے ۔ نواز شریف کو یہ محسوس ہوتا تھا اور وہ اس بات کا اظہار بھی کرتے رہتے تھے کہ وہ دو تہائ اکثریت کی وجہ سے اب بھٹو سے بھی زیادہ طاقت ور ہیں۔ فوج کو زیر اثر کرنا نواز شریف کی خواہش تھی۔
جب بھی وہ اس خواہش کا اظہار کرتے تو چند تجربہ کار سیاستدان یہ فیکٹ ان کے علم میں لاتے کہ ایسا تو بھٹو بھی نہیں کر سکا تو اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ سر کو ہلا کر کہتے میں بھٹو نہیں ہوں ۔12 اکتوبر 1999 کا دن ایک شفا ف چمکدار دن تھا ، مشرف سرکاری دورہ پر سری لنکا میں تھے۔ دوپہر کو وہاں سے پی آئی اے کی کمرشل فلائیٹ سے انہوں نے واپس روانہ ہونا تھا۔ نواز شریف نے دو پہر تک جبکہ وہ تیتروں کا لنچ کررہے تھے کسی کو بھی یہ احساس نہ ہونے دیا کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں ۔
وہ انتہائی پر سکون نظر آرہے تھے ۔
اچانک PTV پر ایک سپیشل بلیٹن میں قوم کو پتہ چلتا ہے کہ جزل مشرف کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے – اور جنرل ضیاء الدین بٹ کو نیا آرمی چیف لگا دیا گیا ہے . ان کو وردی تو پتہ نہیں کہاں سے لا کر دی مگر بیج بھی آرمی نے جاری نہیں کئے بلکہ راجہ بازار پنڈی سے لا کر لگا دیئے گئے . حیران کن بات یہ تھی کہ جنرل موصوف کا تعلق آرمی کی انجنیرنگ کور سے تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب جنرل مشرف جہاز میں تھے۔
جنرل بٹ کو چیف آف آرمی سٹاف بنا کر نواز شریف یہ سمجھے کہ اب تو بس سیاں کو تو ال تو پھر ڈر کا ہے کا ۔ خیر جنرل بٹ آرمی ہاؤس پہنچے تو ان کا استقبال تو درکنار کسی نے ان کو بیٹھنے کا بھی نہ کہا وہ اپنے آفس کے باہر بیٹھے انتظار ہی کرتے رہے کہ وزیراعظم کے حکم پر ان کو چیف آف آرمی سٹاف کے دفتر میں لیجا کر بٹھایا جائے ۔
تو وہ اپنا پہلا حکم جاری کریں وہ وہاں تب تک موجود رہے ، جب تک کہ جنرل مشرف کراچی ایرپورٹ پر لینڈ نہ کر گئے ۔ کہا۔ جاتا ہے کہ جنرل ضیا الدین بٹ راجہ بازار والے بیجز لگا کر آرمی ہاؤس پہنچے تو خود کو جنرل ضیاء الحق سے کم نہیں سمجھ رہے تھے اور ہاں ان کو چیف لگانے کی وجہ ان کا “ بٹ “ ہونا بھی تھی ۔
یہ دو گھڑی کے آرمی چیف کسی معجزے کے منتظر وہیں سے سیدھا فوجی حراست میں لے لئے گئے پھر ان کا کورٹ مارشل ہوا . اگر جنرل بٹ آرمی چیف بن جاتے اور نواز شریف بھی جیل نہ جاتے تو ہو سکتا ہے اس کے بعد جو آرمی چیف آتا اس کا تعلق ایجوکیشن کور یامیڈیکل کور سے ہوتا اور آرمی میں بھی پرچی کلچر داخل ہوجاتا اور کل کلاں کوئ وزیر اعظم خلیفہ بننے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو سپہ سالار بھی بنا لیتا ۔
جزل ضیاالدین بٹ ہوسکتا ہے آج بھی اس دن کو یاد کرتے ہوں اور اپنی وردی اور بیج دیکھ کر سوچتے ہوں کہ .. . حسرت ان غنچوں پہ جو بن کھلے مرجھا گئے —
منتخب کالم