واشنگٹن: امریکی قانون ساز ادارے کانگریس میں ایغور مسلمانوں کیساتھ ناروا سلوک میں ملوث چینی حکام پر پابندی عائد کرنے کا بل کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی کانگریس میں چند چینی حکام پر سفری اور اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کیلیے ایک بل دی ایغور ایکٹ 2019 پیش کیا گیا جس میں چینی صوبے سنکیانگ میں مسلم اقلیت کے ساتھ ناروا سلوک کی مذمت کرتے ہوئے چین کے کچھ سینیئر حکام اور کمیونسٹ پارٹی کے بعض ارکان پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
بل کے حق میں 407 ارکان نے ووٹ دیا اور صرف ریپبلکن کے ایک رکن تھامس میسی نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ بل صدر ٹرمپ کے پاس دستخط کیلیے بھیجا جائے گا جس کے بعد ہی بل پر عمل درآمد ممکن ہوسکے گا۔ قبل ازیں صدر ٹرمپ نے بھی ایغور مسلمانوں کو جبری حراست میں رکھنے اور ذہن سازی کی مذمت کی تھی۔
دوسری جانب چین نے امریکی کانگریس کی قانون سازی کو اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کہا کہ چین خود انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کیخلاف متحرک کردار ادا کرتا ہے اور اپنے ملک میں بھی بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلیے ہر ممکن اقدام اُٹھاتا ہے تاہم کرپشن، قانون کو ہاتھ میں لینے اور وطن مخالف سرگرمیوں میں ملوث افراد کیساتھ سختی سے نمٹا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ ایغور مسلمانوں کے حق میں مسلم ممالک نے کھل کر آواز اٹھانے سے گریز کیا ہے۔ وزیرا عظم عمران خان نے الجزیرہ ٹی وی سے انٹرویو میں یہ انکشاف کیا کہ انہیں معلوم ہی نہیں کہ ایغور مسلمان چین میں کس حال میں ہیں۔
او آئی سی نے اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ اقدامات اور بیانات جاری نہیں کیے جبکہ طاقتور مسلمان ممالک اس مسئلے کو پس پشت ڈالے اپنے معاملات میں مصروف دیکھائی دیتے ہیں۔
کانگرس کی طرف سے چین کے خلاف بل مسلمانوں کے علمبردار ممالک کے لیے کچھ تو پیغام ہو گا؟ لیکن چین کے خلاف صرف بیان دینا بھی آسان نہیں گا۔