جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف غداری کے جرم میں چلنے چھ سال سے چلنے والے مقدمے کا بالآخر فیصلہ سنا دیا گیا۔ خصوصی عدالت کے تین میں سے دو ججوں کی اکثریت نے سزائے موت سنا دی۔ خصوصی عدالت تین ماہ سے مسلسل مقدمہ کی سماعت کر رہی تھی۔ جنرل مشرف کی ملک کے اندر تمام جائیداد پہلے ہی ضبط ہو چکی ہے، اسے مفرور اشتہاری مجرم قرار دیا جا چکا ہے۔ اس پر 3 نومبر 2007ء کو آئین شکنی، ملک میں آئین کو معطل کر کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت سپریم اور ہائی کورٹوں کے 60 ججوں کو برطرف کر کے گھروں میں قید کرنے کے علاوہ، دوسرے سنگین الزامات بھی
عائد تھے۔ اس کے خلاف غداری کا مقدمہ نوازشریف کی حکومت کے دور میں قائم کیا گیا تھا۔ اس کی سماعت تین ججوں پر مشتمل خصوصی عدالت کر رہی تھی۔ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میںاپیل کرنے کی گنجائش ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی سابق فوجی آمر کو آئین شکنی پر سزائے موت سنائی گئی ہے۔ اس کے برعکس جنرل ایوب خاں، جنرل یحییٰ خاں اور جنرل ضیاء الحق کو ایسے ہی الزامات پر کوئی سزاسنانے کی بجائے پورے فوجی اعزازات کے ساتھ دفنایا گیا۔ ملک کی تاریخ میں 1953ء میں سیاسی الزامات کی بنا پر مارشل لا حکام نے مولانا مودودی اور مولانا عبدالستار نیازی کو موت کی سزائیں سنائیں، جو بعد میں عمر قید اور بالآخر رہائی میں تبدیل ہوگئیں۔ جنرل پرویز مشرف کو بھی ریٹائرمنٹ پر باقاعدہ فوجی گارڈ آف آنر کے ذریعے رخصت کیا گیا تھا۔
ایک بہت اہم قانونی نکتہ یہ ہے کہ قانون کے مطابق کسی بیمار شخص کو پھانسی نہیں دی جا سکتی۔ اس اقدام سے پہلے اس کا مکمل علاج کر کے نارمل حالت میں لانا ضروری ہے۔ پرویز مشرف اس وقت شدید بیمار ہے۔ وہ دبئی میں نہائت ضعف اور نقاہت کے عالم میں بستر پر زیر علاج ہے۔ اس حالت میں وہ سفر بھی نہیں کر سکتا اور پاکستان نہیں آ سکتا۔ اس کے پاس سزائے موت کے خلاف سپریم کورٹ میںاپیل اور اس کے مسترد ہونے پر صدر مملکت سے رحم کی اپیل کی گنجائش بھی موجود ہے۔ سپریم کورٹ نے سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دے تو پھر صدر مملکت سے رحم کی اپیل نہیں کی جا سکتی۔
قانونی ماہرین کے مطابق سپریم کورٹ میں اپیل کی سماعت طویل عرصے تک جاری رہ سکتی ہے جب کہ اپیل مسترد ہونے پر صدر مملکت کے پاس رحم کی اپیل پر فیصلہ کی کوئی آئینی یا قانونی مدت مقرر نہیں۔ ایسی اپیل برسوں تک پڑی رہ سکتی ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزائے موت کا فیصلہ ایک اہم تاریخی واقعہ تو قرار پاتا ہے مگر عملی طور پر اس کے غیرمؤثر رہنے کا امکان ہے۔
٭قدرت نے بندرکو ہر چیز کی نقل سکھا دی مگر آگ جلانے کا طریقہ نہ بتایا۔ اسے یہ طریقہ معلوم ہو جاتا تو دنیا بھر کے جنگل جل جاتے اوروہی منظر سامنے آ جاتا تو مسلمانوں کے جانی دشمن نریندر مودی کے ہاتھوں اس وقت ہر جگہ جلتے ہوئے بھارت میں دیکھا جا رہا ہے۔ دہلی، لکھنو، ممبئی، حیدرآباد، مدراس، بنگلور، کلکتہ، بنارس، گوہاٹی وغیرہ، کوئی بڑا شہر نہیں جہاں مسلم کش شہریت قانون کے خلاف خونریز وآتش خیز شدید ہنگامے توڑ پھوڑ، آتش زنی نہ ہو رہی ہو۔ ہندوئوں کی مذہبی کتاب ’رامائن‘ میں بتایا گیا ہے کہ ہندوئوں کے اوتار رام چندر نے اپنی بیوی سیتا کو سری لنکا کے مہاراجہ راون کے قبضہ سے چھڑانے کے لئے اس پر حملہ کیا تو اس کی مدد جنگل کے ایک بہت بڑے بندر ہنومان نے کی۔ ہنو مان نے اپنی لمبی دُم کے سرے پر بہت سی روئی باندھی اس میں آگ لگائی اور پھر اس طرح لنکا میں گھوما کہ پورا لنکا جل گیا!
بھارت میں صوبہ گجرات میں تین ہزار مسلمانوں کا قاتل نریندر مودی نیا ہنو مان نکلا۔ اس نے گجرات میں مسلمانوں کو قتل کیا، بابری مسجد کو شہید کرنے والے جتھے کی قیادت کی، مقبوضہ کشمیر میں وسیع پیمانہ پر ہزاروں کشمیری نوجوانوں کو شہید،زخمی، گرفتار کیا۔ کنٹرول لائن سے پاکستان پر حملے کئے (اپنے دو طیارے گنوائے) اور پھر مقبوضہ کشمیر پرظالمانہ کرفیو نافذ کر دیا جو ساڑھے چار ماہ سے جاری ہے۔ ان تمام انسانیت کش کارروائیوں سے بھی اس کی مسلم کش ہوس پوری نہ ہوئی تو 12 دسمبر کو پچھلے 49 برسوں سے بھارت میں مقیم مسلمانوں 20 لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو ملک سے نکالنے کا قانون منظور کرا لیا۔ اس قانون کے تحت 31 دسمبر2014ء سے پہلے بنگلہ دیش، پاکستان، افغانستان، میانمر سے بھارت میں آنے والے تمام ہندو، سکھ، مسیحی، بدھ اور زرتشتی مہاجرین کو بھارت کی مستقل شہریت دے دی گئی ہے جب کہ تقریباً 20 لاکھ مسلمانوں کو غیر قانونی شہری قرار کر کے بھارت سے نکل جانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس حکم کی تعمیل نہ کرنے والے تمام افراد جیلوں میں بند کر دیئے جائیں گے۔
یہ مسلم کش قانون منظور ہوتے ہی بھارت کے صوبوں آسام، تری پورہ، ممبئی، چھتیس گڑھ، بنگال، دہلی، یو پی، حیدرآباداور سکم میںوسیع پیمانہ پر شدید ہنگامے پھوٹ پڑے۔ ان میں جگہ جگہ پولیس سے تصادم میں متعدد افراد ہلاک و زخمی ہو چکے ہیں۔ زیادہ شدید ہنگامے بنگال، آسام اور یو پی میںہوئے ہیں۔ دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سینکڑوں طلبا سے پولیس کے تصادم میں پولیس کی چار بسیں، دو موٹرسائیکل جلا دیئے گئے، درجنوں عام گاڑیاں تباہ کر دی گئیں۔ پولیس طلبا اور طالبات کے ہوسٹلوں میں گھس گئی، ان پر سخت تشدد کیا اور انہیں گھسیٹ کر باہر نکال دیا۔ لکھنو میں دارالعلوم ندوہ اور علی گڑھ میں مسلم یونیورسٹی کے ہزاروں طلبا باہر نکل آئے اور ہنگامے شروع ہو گئے۔ ان یونیورسٹیوں کے دہلی اور آگرہ کے کیمپسوں، اور حیدرآباد میںمولانا آزاد یونیورسٹی کے بے شمار طلبا کا بھی پولیس سے تصادم شروع ہو گیا۔ بہت زبردست مظاہرے بنگال میں ہو رہے ہیں جہاں بی جے پی کی اپوزیشن کانگریس کی حکومت ہے۔ اس کی وزیراعلیٰ ممتا بینرجی کو نریندرمودی کی سخت ترین دشمن قرار دیا جاتا ہے۔
بنگال میں اب تک متعدد ٹرینیں، ریلوے سٹیشن اور بی جے پی سے تعلق رکھنے والے ریلوے ملازمین کے گھر جلائے جا چکے ہیں۔ تقریباً آٹھ صوبوں میں انٹرنیٹ سروس بند کر دی گئی ہے۔ دہلی میں کانگریس کی قیادت بھی حکومت کے خلاف ان ہنگاموں میں شامل ہو گئی ہے۔ یہ اس وقت پورا بھارت عملی طور پر فسادات، گھیرائو جلائو اور آتش زنی کی زد میں آ چکا ہے جس کی پہلی کبھی مثال نہیں ملتی۔ ان تمام واقعات کی تفصیل اس کالم میں ممکن نہیں۔
شہریت کے اس قانون کا پاکستان اور چین کے علاوہ امریکہ نے بھی سخت نوٹس لیا ہے اس سے بھارت اور امریکہ میں غیر متوقع طور پر سخت کشیدگی شروع ہو گئی ہے۔ مبصرین کے مطابق مقبوضہ کشمیر بھی بھارت کے گلے کا پھندا بن چکا ہے یہ پھندا پورے بھارت پر پھیل گیا ہے۔
٭وزیراعظم عمران خان نے ملائیشیا کا دورہ منسوخ کر دیا اب وہاں وزیرخارجہ جائیںگے! گزشتہ کالم میں ایک تفصیلی تجزیے میں امکان ظاہر کیا گیا تھا کہ سعودی عرب کے دبائو پر پاکستان کے وزیراعظم عمران خان ملائیشیا نہیں جائیں گے جہاں سعودی عرب کے مخالف ممالک ترکی، ملائیشیا اور قطر کے سربراہ اسلامی کانفرنس (جدہ) کے مقابلے میں عالم اسلام کے اتحاد کا نیا نظام بنانے کے لئے جمع ہو رہے ہیں۔ یہ امکان درست نکلا ہے۔