دنیا کی مختلف اقوام اور مذاہب میں مراقبہ کی اہمیت مسلؔم ہے ۔ چین، جاپان اور ہندوستان اور پاکستان میں مذہبی پیشوا، صوفیا کرام صلاحیتوں کی نشوونما اور جسمانی علاج کے لیے مراقبہ کی تلقین وتاکید کرتے رہے ہیں۔ دور جدید میں امریکہ، برطانیہ اور جرمنی میں ہونے والی جدید تحقیقات نے ارتکاز رتوجہ، مثبت اندازفکر اختیار کرنے اور بہت سی مہلک بیماریوں کے علاج کے لیے مراقبہ کی اہمیت واضح کردی ہے۔
1970ء میں پہلی مرتبہ مراقبہ کے طریقہ کاراور اس کے اثرات پر سائنسی تجربات کئے گئے۔
فی زمانہ مراقبے کو ذہنی دباؤ کے خلاف بہترین ہتھیار کے طور پر استعمال کیاگیا ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ جو باقاعدگی سے یوگا، مراقبہ یا سانس کی مشقیں کرتے ہیں ان کا دماغ نہ صرف صحت مند رہتا ہے بلکہ وہ اعتماد کے ساتھ فیصلہ کرنے اور اپنے جذبات پر بہتر کنٹرول کرنے کے قابل بھی ہوتے ہیں۔
اس تحقیق میں یوگا، مراقبہ اور سانس کی مشقوں پر کیے گئے 11 مختلف شائع شدہ مطالعات کا جائزہ لیا گیا، جن میں مجموعی طور پر ہزاروں رضاکاروں نے حصہ لیا تھا۔
ان 11 میں سے 5 تحقیقی مطالعات میں نیا نیا یوگا شروع کرنے والوں کے دماغوں کی اسکیننگ کی گئی جو ہفتے میں کم از کم ایک مرتبہ یوگا سیشن لیتے تھے، اور انہوں نے یہ معمول 10 سے 24 ہفتوں تک جاری رکھا۔ باقی کے 6 مطالعات میں یوگا/ سانس کی مشقیں/ مراقبہ کرنے والوں اور نہ کرنے والوں کی دماغی صحت میں موازنہ کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ یوگا اور مراقبہ میں بہت سی باتیں ملتی جلتی ہیں جن میں سانس کی مشقیں بھی شامل ہیں۔
ویسے تو ذہنی صحت پر ان تینوں چیزوں کے مثبت اثرات پہلے بھی سامنے آچکے ہیں لیکن حالیہ مطالعے میں وین اسٹیٹ یونیورسٹی، ڈیٹرائیٹ اور یونیورسٹی آف الینوئے اربانا شیمپین کے ماہرین نے اس تعلق کو زیادہ تفصیل سے دریافت کیا ہے۔
ان تمام مطالعات کی بنیاد پر یہ مجموعی نتیجہ سامنے آیا کہ مراقبہ اور یوگا سے ہپوکیمپس کا سائز بڑھ جاتا ہے۔ ہپوکیمپس کا تعلق یادداشت اور اکتساب (سیکھنے) سے ہے اور الزائیمر بیماری کے حملے میں سب سے پہلے متاثر ہو کر سکڑنے والا دماغی حصہ بھی یہی ہوتا ہے۔
اسی طرح یوگا اور مراقبہ سے دماغ کے دیگر حصے بشمول ایمگڈالا، پری فرنٹل کورٹیکس اور سنگولیٹ کورٹیکس بھی قدرے پھیل جاتے ہیں۔ ان میں سے ایمگڈالا جذبات کے احساس اور اظہار میں اہم کردار رکھتا ہے،
پری فرنٹل کورٹیکس منصوبہ بندی کرنے اور کسی چیز کو منتخب کرنے یا نہ کرنے میں کلیدی اہمیت رکھتا ہے جبکہ سنگولیٹ کورٹیکس ایک طرف ہمارے جذبات کو معمول کے مطابق رکھتا ہے تو دوسری جانب یادداشت بہتر بنانے اور اکتساب میں بھی اس کی اہمیت نمایاں ہے۔
مراقبے کے ذریعے چونکہ ہمارا مقصد ذہنی تفکرات سے چھٹکارا پاکر ذہنی سکون حاصل کرنا ہے اس لئے ضروری ہے کہ مراقبے سے پہلے اپنے قول وفعل کے قضاو کو ختم کردیا جائے اور عملی زندگی میں جھوٹ، فریب دھوکہ دہی اور منافقت سے گریز کیا جائے۔
مراقبہ عملی طریقہ:
مراقبہ کے لئے پر سکون جگہ اور وقت کا انتخاب کریں جہاں شور وغیرہ نہ ہو، فرش، کرسی، چار پائی یاجائے نماز پر بیٹھ جائیں۔ لمبے لمبے سانس لیں، معدہ خالی رکھیں تمام اعضاء کو ڈھیلا چھوڑ دیں جسم میں تناؤ نہیں ہونا چاہیے۔
اس کے بعد ذہن کو کسی شے مثلاََ چاند، پھول، ستارہ یاقدرتی منظر کے تصور پر مرکوز کر دیں۔ ابتداء میں اس مشق کے لیے صرف پانچ منٹ کی مشق کافی ہوگی۔ مگر آہستہ آہستہ یکسوئی حاصل ہوجائے گی۔
ذہنی یکسوئی کا وقفہ بڑھنے لگے تو خیالات قابو میں رہیں گے اور طبیعت میں ایک ٹھہراؤ سا محسوس ہونے لگے گا۔ ذہنی ارتکاز جسم، دماغ کی منفی صلاحیتوں کو اجاگرکرے گا۔
مراقبے سے جسم تندرست اور چہرے پر تازگی آتی ہے لاابالی پن ختم ہوکر طبیعت میں ٹھہراؤ پیدا ہوتا ہے جوکہ پروقار شخصیت کے لئے انتہائی لازمی ہے۔ مراقبہ کی مشق کرتے رہنے سے ذہن کی مخفی صلاحیتیں بیدار ہوجاتی ہیں اور انسان خود کوجسمانی، ذہنی، نفسیاتی اور روحانی طور پر چاک وچوبند محسوس کرتا ہے۔