62 سالہ قاسم سلیمانی کا تعلق متوسط سے گھرانے سے تھا ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے واجبی سی باقاعدہ تعلیم حاصل کی تھی لیکن پاسدارانِ انقلاب میں شمولیت کے بعد وہ اپنی ذہانت اور صلاحیت کے بل بوتے پر تیزی سے اہمیت اختیار کرتے گئے۔
1980 سے 1988 تک جاری رہنے والی ایران عراق جنگ میں قاسم سلیمانی نے اپنا نام بنایا اور جلد ہی وہ ترقی کرتے کرتے سینیئر کمانڈر بن گئے۔
جنرل قاسم سلیمانی ایران میں پاسداران انقلاب کی القدس فوج کے سربراہ تھے۔ شام اور عراق کی جنگ میں ان کا اہم کرداررہا۔ وہ شام اورعراق میں بھی ایران کی نمائندگی کرتے ہوئے حفاظتی اقدامات کرتے تھے اورکئی حملوں کے لیے منصوبہ تیارکرنے کے حوالے سے بھی جانے جاتے تھے ۔ خلیجی ممالک میں ایران کے بارے میں موثرنظریہ بنانےاورایران کے ساتھ ان ممالک کودوستانہ تعلقات کے لیے راہ ہموارکرنے میں قاسم سلیمانی کا بڑا اہم کرداررہا۔ اسی وجہ سے وہ امریکہ ، اسرائیل ، سعودی عرب اور تہران کے مقامی دشمنوں کے نشانے پرتھے۔ امریکہ کی نظرہمیشہ سے جنرل قاسم سلیمانی پرتھی۔
جنرل سلیمانی مشرقِ وسطیٰ میں اپنے ملک کی سرگرمیوں اور عزائم کے منصوبہ ساز اور جب بات امن یا جنگ کی ہو تو ایران کے اصل وزیرِ خارجہ تھے۔قاسم سلیمانی 2018 میں اس وقت سرخیوں کی زینت بن گئے۔ جب انہوں نے اعلان کیا کہ عراق کی حکومت بنانے میں ان کا براہ راست کردار ہے۔ سلیمانی بیشترموقعوں پربغداد جایاکرتے تھے، وہ گزشتہ ماہ بھی یہاں آئے تھے ، جب پارٹیاں یہاں حکومت بنانے کی سمت میں مصروف تھیں۔
حال ہی میں، قاسم سلیمانی ایران میں ایک مشہور شخصیات کی طرح مقبول ہوئے تھے۔ انسٹاگرام پران کی ایک بہت بڑی فین فالوونگ تھی۔ ان کے مداحوں میں اضافہ ہونے لگاتھا جب سے انہوں نے 2013 میں شام کے تنازعہ میں ایران کے کردارکوقبول کیاتھا اورانسٹاگرام پر شام میں جاری تنازعہ کی تصاویر اوردستاویزی فلمیں پوسٹ کرنا شروع کیں۔ قاسم سلیمانی کومیوزک ویڈیو اورمتحرک فلموں میں دکھایاگیاہے۔
قاسم سلیمانی ایران کا ہیرو
قاسم سلیمانی اپنے دوستوں کے ساتھ ساتھ دشمنوں میں بھی مقبول ہوئے۔ ایران کے آس پاس کے ممالک میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے میں قاسم سلیمانی کا اہم کردار تھا۔ جہادی افواج کے ساتھ جنگ کے ساتھ ساتھ عراق اور شام کے ساتھ بہتر سفارتی تعلقات میں قاسم سلیمانی نے بڑا کردار ادا کیا۔ سی آئی اے کے ایک سابق اہلکار نے انہیں ایران کا جیمز بانڈ قراردیاتھا۔
سی آئی اے کے مطابق ، قاسم سلیمانی مغربی ممالک میں اسلامی انقلاب لانے کی کوشش کررہےتھے،وہ دہشت گردوں کی حمایت کررہے تھے اور مغربی ممالک کی حکومتوں کوغیرمستحکم کرنے کی کوشش کررہے تھے۔عام ایرانی باشندوں میں قاسم سلیمانی، بہت مقبول تھے۔عوام کا ایک طبقہ چاہتا تھا کہ سلیمانی ملک کی سیاست میں حصہ لیں۔ تاہم انہوں نے اس کی تردید کی کہ وہ ایران کے صدر بننے کی دوڑ میں ہیں۔
2018 میں، ایران کے مقبول رہنماؤں کے بارے میں ایک سروے کیا گیا تھا۔ اس سروے میں ، لوگوں نے قاسم سلیمانی کو83 فیصد ووٹ دیئے تھے۔ سلیمانی نے صدر حسن روحانی اور وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔گذشتہ دو دہائیوں میں قاسم سلیمانی پر کئی مہلک حملے ہوئے ہیں۔ ان حملوں کے پیچھے امریکہ اور مغربی ممالک کا ہاتھ تھا۔ قاسم سلیمانی امریکہ کے ساتھ ساتھ مغرب اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں کے ریڈارپرتھے۔
قاسم سلیمانی کی ایران میں اہمیت
قاسم سلیمانی کی ذمہ داری ایران کی سرحد سے باہر کام کرنے کی تھی۔ وہ ایران کے مفادات کے پیش نظر بیرون ملک کے آپریشن میں مصروف رہتے تھے۔ سن 2011 کی خانہ جنگی میں شکست کے قریب تھے توقاسم سلیمانی نے شام کے صدر بشارالاسد کی حمایت کی تھی۔ قاسم سلیمانی نے عراق میں باغی گروپوں کی بھی مدد کی۔ قاسم سلیمانی سن 1998 میں ایران کی قدس فورس کے سربراہ بن گئے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ اپنی پوزیشن کو کم پروفائل پربرقراررکھا۔ اپنے دورحکومت میں ، انہوں نے ایرانی فوج کو مضبوط کیا۔ قاسم سلیمانی نے لبنان کے حزب اللہ ، شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت اور عراق میں شیعہ ملیشیا گروپ کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھے تھے۔
قاسم سلیمانی کی موت کے بعد اب کیا ہوگا؟
امریکی فضائی حملے میں قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد ، امریکہ اور ایران کے مابین کشیدگی مزید بڑھ جائے گی۔ امریکہ نے بھی اس بارے میں انتباہ جاری کیا ہے۔ امریکہ نے پاکستان جانے والے ہوائی راستے سے متعلق انتباہ جاری کیا ہے کہ اس راستے پر فضائی راستوں کو دہشت گرد نشانہ بناسکتے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قاسم سلیمانی کی موت پر امریکی پرچم کو ٹویٹ کیا ہے۔ اپریل 2019 میں امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے قاسم سلیمانی کی قدس فورس اور ایرانی پاسدارانِ انقلاب کو دہشت گرد قرار دیا اور الزام لگایا کہ القدس فورس لبنان کی حزب اللہ اور فلسطین اسلامک جہاد سمیت ایسے گروہوں کی مشرقِ وسطیٰ میں مدد کے لیے تیار رہتی ہے اور ایران اس کی پشت پناہی کرتا ہے ، جنھیں امریکہ دہشت گرد قرار دے چکا ہے اور یہ فورس انھیں مالی مدد، تربیت، ہتھیار اور آلات فراہم کرتی ہے۔