ایک مغالطہ یہ ہے کہ درحقیقت سیکولرزم ریاست اور مذہب کو جدا کرنے کا نام ہے اور یہ انسانی کے ذاتی خیالات یا مذہبی افکار میں دخیل نہیں ہوتا سیکولرازم ریاستی قوانین تک محدود رہے گا اور فرد کی سطح پر کسی بھی شخص کو اپنے مذہب پر چلنے کی مکمل آزادی ہوگی۔
لیکن کیا یہ بیانیہ درست ہے اور کیا اطلاقی سطح پر اسکا اظہار من و عن اسی طرح ہوتا ہے یا ہونا ممکن ہے؟ آئیے اس سوال کی جانچ کرتے ہیں۔
یہاں چند بنیادی سطح کے امور کا سمجھ لینا ضروری ہے۔
بنیادی سطح پر سیکولرازم صرف ایک سیاسی نظریہ نہیں ہے بلکہ جب اسکا اطلاق ہوگا تو یہ بہت سے امور کا تقاضا کرے گا معاشرے کی ایک مخصوص ساخت کے بغیر سیکولرازم کا چلنا ممکن نہیں ہے ، ایک سیکولر ریاست کیلئے لازم ہے کہ وہ جمہوری طرز سیاست اختیار کرے ایک بادشاہت یا ایک ڈکٹیٹر شپ زدہ معاشرہ سیکولر نہیں ہو سکتا (گو کہ بہت سے بادشاہ اور ڈکٹیٹر سیکولر بھی گزرے ہیں) اب جمہوری طرز سیاست اسی وقت سیکولرازم کو سپورٹ کرے گی جب معاشرہ ایک مخصوص سطح پر فکری طور پر بھی سیکولر ہوگا مثال کے طور پر پاکستان ایک جمہوریہ ہے اور یہاں کے عوام کی اکثریت مذہبی ہے اسی لیے پاکستان میں جب بھی قانون سازی ہوگی اس میں مذہب کے اثرات ضرور آئیں گے اسی طرح ہندوستان بظاہر ایک سیکولر ریاست ہے لیکن ہندوستان کی اکثریت مذہبی ہے اسلیے وہاں بھی قانون سازی پر مذہب کے اثرات آئیں گے اور لطف کی بات یہ کہ مذہب کے اثرات بھی اکثریتی مذہب کے رنگ میں رنگے ہوں گے (پاکستان کی پارلیمان میں قادیانیت کی تکفیر یا ہندوستانی عدالتوں سے بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنائے جانے کا فیصلہ) سو یہ ثابت ہوا کہ جب تک معاشرہ مذہب سے پرے نہیں ہوگا یا پھر جب تک معاشرہ متشکک نہیں ہوگا سیکولر سیاسی نظریہ کارآمد ثابت نہیں ہو سکے گا اسی لیے مسلم معاشروں کو سیکولرائز کرنے کی کوشش موجودہ صدی اور پچھلی صدی میں عروج پر رہی ہے۔
یہاں پر سیکولر نظریے کو جمہوری طرز سیاست سے ہاتھ اٹھانا ہوگا، جی ہاں اگر معاشرے کی اکثریت مذہب پسندوں کی ہے تو سیکولر ریاست ڈکٹیٹرشپ کو بھی سپورٹ کر سکتی ہے، مثال کے طور پر ترک عوام بنیادی سطح پر مذہب پسند تھی اسی لیے خلافت کے خاتمے کے بعد بننے والی سیکولر ریاست کو بھی آمرانہ طرز عمل اختیار کرنا پڑ کیونکہ خالص جمہوری طرز عمل کے نتیجے میں معاشرہ دوبارہ سے مذہبی ریاست کی شکل میں ابھر کر سامنے آجاتا۔
دوسری جانب ایک اور عجیب بات یہ ہے کہ سیکولر ریاست ایک کمیونسٹ طرز معیشت کی جگہ سرمایہ داریت کی پشتیبان دکھائی دیتی ہے جبکہ سرمایہ داریت کے مقابلے میں کمیونسٹ نظام زیادہ انسان دوست دکھائی دیتا ہے ایک سیکولر ریاست کا انسانیت کی خدمت کا دعویٰ یہاں پر شکوک و شبہات کی نظر ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
جیساکہ اوپر بیان کیا کہ سیکولر ریاست فرد کی سطح پربھی آپ کو وہی مذہبی آزادی دے گی کہ جو اسے قبول ہو ایک اور مثال دیکھتے ہیں امریکہ اور یورپ میں بلکہ مشرق کی سیکولر ریاستوں یہاں تک کہ مذہبی ریاستوں میں بھی اس بات پر قانون سازی کی گئی ہے کہ مرد بیک وقت دو عورتوں کو شادی کے بندھن میں نہ باندھ سکے یا کم از کم اسے مشکل تر بنانے کی کوشش ضرور کی گئی ہے۔
اگر امریکہ یا یورپ کی کسی ریاست میں کوئی مرد دو شادیاں کرنا چاہے تو بہت سی جگہ یہ ایک قانونی جرم ہے کیونکہ انکے تصور حیات کے تحت یہ عورت کے حقوق کی خلاف ورزی ہوگی بھلے دو عورتیں اس پر بخوشی راضی بھی ہوں۔
اسی مغربی معاشرت میں “اوپن میرج” کی اجازت ہے یعنی میاں بیوی بخوشی ایک دوسرے کو یہ اجازت دیں کہ وہ کسی دوسرے مرد یا دوسری عورت کے ساتھ جنسی تعلق قائم کر سکیں ہاں اسکا چھپانا انکے ہاں جرم ہوگا لیکن علم میں لاکار باہمی رضامندی سے اسکی اجازت دی جا سکتی ہے۔ یعنی معاشرتی سطح پر بھی ایک سیکولر ریاست آپ کے مذہبی حقوق میں دخیل ہوگی اسے آپ کا وہی مذہبی حق قبول ہے کہ جو اسکے نظریہ حیات اور تصور جہاں کے مطابق ہو۔
مزید آگے بڑھتے ہیں معروف اسلامی نکتہ نگاہ یہ ہے کہ ایک مسلمان مرد ایک مسیحی عورت سے نکاح کر سکتا ہے یعنی اہل کتاب عورت سے لیکن ایک ہندو ، سکھ ، پارسی یا ملحد عورت سے نہیں اور ایک مسلمان عورت صرف ایک مسلمان مرد سے نکاح کر سکتی ہے (گو کہ اس مذہبی نکتہ نگاہ کو بھی تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے) بنیادی بحث یہ نہیں یہاں نکتہ یہ ہے کہ ایک مسلمان مرد اور مسیحی عورت کی شادی ہو جاتی ہے (معروف نظریے کے مطابق) تو اب انکی اولاد کا مذہب کیا ہوگا کیا وہ مسلمان ہوں گے یا وہ مسیحی ہوں گے کیا وہ مسجد جائیں گے یا وہ چرچ جائیں گے کیا مسلمان مرد انہیں مسلمان کرے گا یا مسیحی عورت انہیں مسیحی کرے گی، ایک تصور تو یہ ہے کہ ہردو ماں باپ بچے کو اپنے اپنے مذہب کی تعلیم دیں گے اور پھر بچہ کوئی ایک مذہب اختیار کر لے گا لیکن کیا اس سے بچہ کنفیوز نہیں ہوگا اور اس پر برے نفسیاستی اثرات مرتب نہیں ہوں گے ؟ تو یہاں پر سیکولر ریاست دخیل ہوگی ایک سیکولر نظریے کے مطابق بچے کو اس وقت تک ملحد یا متشکک رکھا جائے کہ وہ خود فیصلہ کرنے کے قابل ہو سکے (ایک سیکولر معاشرے میں یہ شعوری بلوغت بھی قابل سوال ہے لیکن ہم اگر اسے شادی کی عمر کے مطابق اٹھارہ سال تسلیم کرلیں تو) اب اٹھارہ سال کی عمر تک ایک بچے کو ملحد یا متشکک رکھا جائے گا اسے کسی ایک مذہب کا پابند نہیں کیا جا سکتا، غور کیجئے یہاں ایک سیکولر ریاست براہ راست ذاتی حیثیت میں ہونے والے مذہبی معاملات میں دخیل ہوگی۔
جیساکہ عرض کی سیکولر ریاست اسی وقت چل سکتی ہے کہ جب اسکا نظام جمہوری ہو اور جمہوری نظام اسی وقت سیکولر ریاست کو سپورٹ کر سکتا ہے جب معاشرہ فرد کی سطح پر سیکولر ہو یعنی اعتقادی حوالے سے کم از کم اگناسٹک ضرور ہو اس کے بغیر ایک سیکولر ریاست کا تصور محال ہے سو یہ کہنا کہ قانونی سطح پر ریاست کو مذہب الگ کرنا سیکولرآئیزیشن ہے درحقیقت ایک بہت بڑا مغالطہ یہاں سیکولر از معاشرتی سطح پر بھی ایک لامذہب معاشرے کا تقاضا کرتا ہے۔