میں ابھی ایک کیفے میں دو عزیز دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا ۔ کھانے کے بعد تندوری چائے پرنشست جمی۔ دونوں نوجوان عمران خان کے مداح ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ عمران خان کے دِل میں وہی ہے جو وہ ماضی میں کہتا رہا لیکن اب وہ زمینی حقیقتوں کو تسلیم کرتے ہوئے ناگزیر ڈیل کر کے اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوا ہے۔ اسے وقت ملنا چاہیے۔ ممکن ہے وہ مہارت کے ساتھ درجہ بہ درجہ تبدیلی کو رونما کر دے ۔ اس کی ابھی ایسی پوزیشن نہیں کہ وہ طاقتوروں سے بھڑ جائے اور سب کچھ تلپٹ کردے۔
ان میں سے ایک دوست بار بار ترکی کے طیب اردوان کی مثال دے رہا تھا کہ وہ کئی برسوں سے اقتدار میں ہے لیکن اس نے پہلے عوامی حمایت حاصل کی، معیشت پر توجہ دی ۔ گراؤنڈ پر اپنی مضبوط فٹنگ بنائی اور بھر جرنیلوں کا احتساب شروع کیا۔ اس کی طویل اننگز کا نتیجہ بغاوت کرنے والے فوجیوں کی عوام کے ہاتھوں پٹائی کی صورت میں ظاہر ہوا، ان میں سے ایک نوجوان پہلے ہی مجھے کہہ چکا ہے کہ عمران خان کو 15 سال مل گئے تو وہ اپنے ماضی کے خوابوں میں سے بہت سوں کو اچیو کر جائے گا۔
ان دوستوں نے کہا کہ یہ ہماری فینٹسائزڈ قسم کی سوچ ہے ، ممکن ہے ایسا نہ بھی ہو سکے لیکن ہمیں لگتا ہے کہ اسے وقت ملا تو ایک دن ایسا ضرور ہو گا۔ لہٰذا جلدی نہ مچائیں۔
میں نے ان دوستوں سے کہا کہ مجھے دلیل سے قائل کیجیے کہ عمران خان نے گزشتہ سوا برس میں کون کون سے ایسے کام کیے ہیں جن سے یہ لگتا ہو کہ وہ اپنے ماضی قریب میں عوام کو دکھائے خوابوں کی تعبیر تراش رہا ہے ؟ اس نے کوئی ٹیم بنائی جس کی مثال دی جا سکے؟ کوئی اسٹینڈ لیا جس کا انجام یوٹرن نہ ہو؟ مجھے تو لگتا ہے کہ وہ مسلسل ایسے سمجھوتے کر رہا ہے جو اس کے ماضی قریب کے آن دی ریکارڈ عزائم سے متضاد ہیں۔ اسے آپ کیسے حکمت عملی کہہ سکتے ہیں؟ اس کی کامیابی کے امکان کی کوئی دلیل؟
خیر یار لوگ اپنی بات پر قائم تھے۔خدا کرے کہ ان کے خواب مجسم ہوں۔ یہاں رومان ٹوٹنے کی روایت بڑی پرانی ہے ۔ ستر کی دہائی کے اختتام پر سُرخ سویرا لانے والوں کی حالت یہ تھی کہ وہ سرِ شام حلق تر کرنے کے بعد اپنی جوانی کے اکارت جانے پر آنسو بہایا کرتے تھے۔ انہوں نے بھٹو کی پارٹی کو اپنا پلیٹ فارم سمجھا لیکن وہ تو کچھ اور ہی معاملہ نکلا۔
افغانستان میں طالبان آئے تو یہاں بہت سوں نے داڑھیاں اُگا کر بڑھا لیں لیکن وہ کہانی بھی گول ہو گئی۔ سبز سویرا نہیں پُھوٹا۔
مشرف کے عہد میں کچھ لوگوں کو لگا کہ ‘دقیانوسی’ کا زمانہ اب لد چکا ، آزاد منڈیوں کے ان وکیلوں کی امیدوں پر پھر ایسی اوس پڑی کہ اب تک وہ ہری نہ ہو سکیں۔
عمران خان نے بھی تبدیلی کا اسٹال لگایا ۔ اسٹال کے گرد نئے دیوانوں کا ہجوم جمع ہوا۔ جو تکنیکی کمی رہ گئی طاقتور انجینئرز نے پوری کردی۔ اب لوگ اس تبدیلی کو بھوگ رہے ہیں ۔ مستقبل قریب کے اشاریے خوش کُن نہیں ہیں۔ رومان شروع ہی میں بکھرتا جا رہا ہے۔
نواز شریف سرد وگرم چشیدہ سیاست کار تھے۔ ماضی کا بوجھ تو تھا ہی لیکن آخر میں انہوں نے خود کو مزاحمت کا استعارہ بنانے کی پریکٹس کی۔ دیوانے ایک بار پھر چلے آئے۔ لیکن وہ مزاحمت بھی آخر میں ایک ادھوری المیہ کہانی بنی۔ اس پرانے گھاگ سیاست کار سے جڑا نیا رومان بھی اپنی موت آپ مر گیا۔
اب کہیں مایوسیوں کی کرچیاں ہیں تو کہیں وضاحتوں کے بے اثر مرہم، لیکن تاریک سُرنگ کے دوسرے کنارے پر روشنی کا ابھی تک کوئی اہتمام نہیں ہے۔ دیوانوں کے دیدے وہ کِرن تلاشتے تلاشتے پتھرا گئے ہیں۔ خدا جانے تلاش کا یہ سفر کب تمام ہو گا۔ چلیں سفر ہے شرط ۔۔۔!
سرِدست میں اپنے ان دوستوں کے لیے احمد مشتاق کی زبان مستعار لوں گا :
نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے
ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں