جنوری کی 10 تاریخ ، 2013 میں علمدار روڈ پر دو بم دھماکے ہوئے تھے، جس میں 130 کے قریب شیعہ شہید ہوئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے ۔ آپ اگر ایک پاکستانی شیعہ ہیں تو جنوری 2013 آپ کی یادوں سے کبھی محو نہیں ہو سکتا ۔ شدید سردی میں کوئٹہ شہداء کے ورثاء نے تقریبا ایک ہفتہ دھرنا دیا ، اور انکی پیروی کرتے ہم شیعوں نے پاکستان بھر میں دھرنا دیئے رکھا ۔ سردی کی وہ یخ بستہ راتیں ، فضا میں لبیک یا حسین ع کی آوازیں ، لہو گرماتے نوحے ، ہزاروں لوگوں کا ایکساتھ “اے شہیدو تم کہاں ہو” کبھی “شمع سے شمع جلے” پڑھنا ۔ نقطہ انجماد سے بھی نیچے درجہ حرارت لیکن خواتین ، بچوں کا بھی مستقل بیٹھے رہنا ۔
پوری ملت گویا تسبیح کی طرح ایک دھاگے میں پروئی گئی تھی ، یوں لگتا تھا کہ ان شہداء کے خون کو انصاف مل جائیگا ، لیکن اسکے بعد جو ہوا اور جس خاموشی سے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا گیا ، وہ آج بھی عام شیعوں کو خون کے آنسو رلاتا ہے ۔ شاید ہی اب کبھی شیعہ اس طاقت کا مظاہرہ کر سکیں جو انہیں ان 130 مظلومین کے خون نے عطا کی تھی ۔ کاش اسوقت کچھ فیصلے ہو جاتے تو تکفیری ناصبی جماعتیں اور انکے پالن ہار آج کچھ قدم پیچھے ہوتے ۔ لیکن کاش ۔
قبر ستان بہشت_زینب میں سانحات کے مطابق شہداء مدفون ہیں ۔ سانحات کی تفصیل بتاتی ہے کہ شیعہ پورے بلوچستان میں کہیں بھی محفوظ نہیں
مستونگ ، بولان ، مچھ، خضدار، کوئٹہ ہر جگہ شیعوں کا مقتل سجا ۔ کہیں ٹارگٹ کلنگ میں کوئی شہید ہے جیسے علامہ شیخ محمد حسن جعفری النجفی ، جو نماز کیلئے جاتے شہید کئے گئے ۔ ایک طرف سانحہ مچھ کے شہداء کی قبور ہیں جب چھے شیعہ ہزارہ 2013 میں شہید ہوئے تھے ۔
کچھ پیچھے کی صفوں میں “شہدائے عاشورہ” ہیں ۔ یہ 42 شہداء ہیں جو 2 مارچ 2004 کو ناصبی تکفیری دہشتگردوں کی اندھا دھند فائرنگ سے شہید ہوئے، جب یہ نوحہ خوانی و ماتم زنی کرتے آگے بڑھتے تھے تو لشکر جھنگوی سپہ صحابہ نے ان پر فائر کھول دیا (انکا سرغنہ رمضان مینگل آج بھی آزاد ہے)۔ ان قبور سے تھوڑا آگے سانحہ آئی جی چوک کے شہداء ہیں ، وہ تیرہ شہداء جو 2017 میں آئی جی روڈ پر بم دھماکے کیوجہ سے شہید ہوئے ۔ ایک طرف سانحہ سرکلر روڈ کی یادیں ہیں ، آپکو یاد ہو گا جب 2015 میں سرکلر روڈ پر تکفیری گروہ کی فائرنگ سے پانچ شیعہ شہید ہو گئے تھے ۔ آپ آگے بڑھتے جائیں، کتبے پڑھتے جائیں اور آنسو بہاتے جائیں ۔ ان شہداء میں اکثر نوجوان ہیں ، بانکے، سجیلے، مسکراتے ۔ جو آج اپنے گھروں میں نہیں ، کیونکہ وہ شیعہ تھے ۔
سب سے آگے والی ، قبروں کی پہلی صف میں سانحہ علمدار روڈ کے شہداء ہیں ۔ اگلی صفوں میں یہ مسکراتے چہرے لئے ایسے لگتے ہیں جیسے نماز_عشق ادا کرتے نمازی ہوں ۔ ان میں تعمیر پاکستان بلاگ (ایل یو بی پی ) کے صحافی عرفان خودی ہیں ، یونیورسٹی کے طالبعلم بیس سالہ شہید محمد حسن ہیں ، کوئٹہ کلب والے شہید مہدی ہیں ، قائد آباد تھانے کے SHO محمد جعفر ہیں ۔ شہید محمد جعفر کی پولیس یونیفارم میں ملبوس تصویر لگائی گئی ہے اور اس مسکراتی تصویر کیساتھ لکھا ہے
مٹی میں جذب ہو گیا جب سے تیرا لہو
اس دن سے سرخ پھول کی رنگت نکھر گئی
سانحہ علمدار روڈ کے تقریبا تمام شہداء کی قبروں کے کتبے ایک سے ہیں ، سوائے ناموں کے اور کچھ مختلف نہیں ۔ ظاہر ہے ، ان سب کی قبریں ایکدن ، ایکساتھ کھودی گئی تھیں ، ایکساتھ دفنایا گیا تھا ، تو کتبے بھی ایکساتھ بنوائے گئے ہونگے ۔ سوچا جائے تو کسی قوم کیلئے یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ایک ہی دن میں اسکے سو خاندان اجڑ جائیں ۔ میں نے ان شہداء کے پاس بیٹھ کر زیارت عاشورہ پڑھی، اور جب “یا اللہ میری موت کو آل_محمد ص کیساتھ قرار دینا” پڑھا ، تازہ ہوا کا ایک جھونکا آیا گویا یہ شہید مسکرا دیئے ہوں ۔
ان شہداء میں ایک اٹھارہ سال کا شہید سبطین علی ہے ، اسکے نام کیساتھ “شہید کربلائی” لکھا ہے ، تصویر کے پیچھے روضہ امام حسین ع کی تصویر ہے ، قبر کے اوپر لبیک یا حسین ع کا بورڈ لگا ہے ۔ یوں لگتا ہے اس شہید کو مولا حسین ع سے بہت انس تھا ، اور یوں بھی لگتا ہے کہ اسکی قبر بنانے والا اسکا بھائی ہو گا ، قبر پر کچھ اشعار درج ہیں جو ایک بھائی ہی بھائی کی قبر پر لکھ سکتا ہے
شاہ شہداء لاش_علمدار سے لپٹے
کس شوق سے، کس یاس سے، کس پیار سے لپٹے
غمخوار سے عاشق سے مددگار سے لپٹے
زخمی سے مسافر سے وفادار سے لپٹے
روتے رہے شاہ شہداء مر گیا بھائی
آغوش میں بھائی کی ، سفر کر گیا بھائی
سانحہ علمدار روڈ کے شہداء کی ساتویں برسی بھی قریب ہے ، تمام کیلئے الفاتحہ