“مڈل ایسٹ کے امور کے ماہر اور کئی کتابوں کے مصنف برطانوی صحافی جان آر بریڈلے نے برطانوی جریدے سپیکٹیٹر میں شایع اپنے تازہ ترین مضمون میں دعوا کیا ہے کہ سعودی عرب اور ایران میں باہمی کشیدگی ختم کرنے اور امن قائم کرنے کے لیے اومان میں بیک ڈور چینل مذاکرات میں تیزی آگئی ہے- انھوں نے دعوا کیا ہے کہ یمن کے حوثی قبائل سے بھی بیک ڈور چینل امن مذاکرات میں تیزی آئی ہے۔”
ایران کے مقدس شہر قم میں گزشتہ ہفتے ایک لہو رنگ جھنڈا جمکران مسجد پر لہرا دیا گیا- یہ جھنڈا عام طور پر شہداء کی یاد منانے کے لیے ہوتا ہے لیکن اس مرتبہ اس کا مقصد ہتھیار اٹھاکر بدلا لینے بھی تھا۔
امام مسجد نے کہا،’ ہم نے یہ جھنڈا اس لیے لہرایا ہے تاکہ تمام دنیا کے شیعان قاسم سلیمانی کے ظالمانہ اور بلاجواز خون بہانے کا بدلہ لینے کے لیے اکٹھے ہوں- تہران گی گلیوں اور بازاروں میں فضائی حملے کا جواب اور ایرانی جنرل سلیمانی کے خون کا بدلہ لینے کی بات ہورہی ہے۔ ہر جگہ بس جنگ کی باتیں ہیں۔ اگر ان سب کا مقصد ایران کے دشمن سنّی عربوں کے دلوں میں اللہ کا خوف بیٹھانا تھا تو یہ مقصد واقعی پورا ہوگیا ہے۔( امریکہ کے سعودی عرب میں سابق سفیر سے یہی توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ امریکہ کے اتحادی مڈل ایسٹ کی بادشاہتوں اور ایران و اس اتحادیوں کی سٹرٹیجک کشمکش کو یوں شیعہ- سنّی بائنری میں دکھائے- حالانکہ وہ کہہ سکتا تھا کہ اگر اس کا مقصد عرب کی امریکی اتحادی مطلق العنان عرب حکومتوں کے دلوں میں خوف خدا بٹھانا مقصود تھا۔۔۔۔)
ریاض میں بڑی بے چینی اور پریشانی کا عالم ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ہنگامی جنگ مخالف وفد واشنگٹن اور لندن روانہ کیا ہے۔ جبکہ گھر پر اس کے حکام یہ زور دے کر کہہ رہے ہیں کہ ڈرون حملے بارے ان سے پہلے کوئی مشاورت نہیں کی گئی تھی-‘ براہ کرم ہم پر الزام مت دھریں،’ یہ پیغام ایران کو تھا۔ یو اے ای کا وزیرخارجہ نے بھی فریقین کو مزید کچھ کرنے سے روکا اور خبردار کیا کہ اگر امریکہ و ایران کے درمیان جنگ ہوئی تو بڑی تباہی ہوگی
یو اے ای کا سب سے بڑا دشمن قطر کا وزیر خارجہ جہاں ایک بڑا امریکی فوجی اڈا ہے جو ایران کے خلاف امریکی جنگ میں بڑا لانچنگ پیڈ بن سکتا ہے نے اس سے آگے قدم بڑھایا- اس نے تہران کا دورہ کیا ،صدر حسن روحانی سے ملا اور تعزیت پیش کی- اس نے کہا،’ قطر اس گہرے غم و دکھ کو سمجھ سکتا ہے جو ایرانی عوام اور حکومت بھوگ رہے ہیں۔’
سلیمانی کے قتل پر سنّی عربوں کا جو متحدہ ردعمل امریکہ نے چاہا تھا وہ تو مشکل سے دیکھنے کو ملا- ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارت کے آغاز کار سے مڈل ایسٹ بارے جو حکمت عملی بنائی تھی اس کا مقصد اسرائیل اور سنّی خلیج عرب ریاستوں (خاص طور پر سعودی عرب اور یو اے ای کو) شیعہ ایران کے خلاف بھڑکانا تھا۔
عقابوں کے مقصد جس کو ٹرمپ نے بھی گلے کا ہار بنالیا تھا ایران کو سفارتی طور پر تنہا کرنا اور پھر مختلف فوجی محاذوں پر اس کے ساتھ پنجہ آزمائی کرنا تھا- اس مقصد کے لیے ٹرمپ نے سعودی عرب والوں کو ہر ایک موقعہ پر چھوٹ دی اور یہاں تک کہ جب ابن سلمان نے واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار جمال خشوگی کو کاٹ کر ٹگروں میں بدلا اور اس کی باقیات کو تندوری چولہوں میں چلا دیا تھا اس وقت بھی چھوٹ دیے رکھی
اسرائیل، یو اے ای اور سعودی عرب تینوں اپنے نئے انٹیلی جنس تعاون اور اپنے متحدہ محاذ کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر دکھارہے تھے جن کا ہدف ان مظہر کے خلاف تھا جسے وہ بڑھتے ہوئے ایرانی گند کے طور پر دیکھتے تھے۔ ان کا باہمی فلرٹ گہرے سفارتی اور ثقافتی بندھنوں میں جھلک رہا تھا- اور ایک مرحلے پر تو ‘عرب نیٹو’ کی تجویز بھی گردش کررہی تھی- افشا ہوجانے والی دستاویزات سے پتا چلا کہ سعودی عرب والے اسرائیلیوں کی طرح واشنگٹن کو ایران کی ایٹمی تنصیبات پر براہ راست حملے پر ماضی میں مجبور کرتے رہے تھے۔
تو ٹرمپ کو یہ سوچنے پر معاف کیا جاسکتا ہے کہ وہ سلیمانی کی موت پر سعودی والوں کے بہت زیادہ مسرور ہونے کی سوچ رکھتا تھا۔ اس کی بجائے یو اے ای والوں نے تو ایک گولی چلائے بغیر صلح کا سفید جھنڈا لہرادیا- ایران کی درخواست پر: اس کی فوج نے عرب ریاستوں سے اپنے آپ کو امریکہ سے فاصلے پر رہنے کی شرط پر صلح کی پیشکش کردی۔ اس نے کہا سنّی شہر تب بھی براہ راست حملوں کا نشانہ بنیں گے اگر کسی نے ایران کے عراق میں امریکی اڈوں پر حملے کے ردعمل میں امریکہ کے کسی ردعمل میں تعاون کیا-(اس صورت میں دبئی پہلا شہر ہوگا جسے تباہ کردیا جائے گا) اسی وقت اسرائیل اور امریکہ کو بھی ایران نے ایک خیال کیا
برطانوی افواج کے عراق میں رہے سابق کمانڈر جنرل جوناتھن شا نے اس صورت حال کو اچھے سے واضح کیا: ایران کے مقاصد عسکری نہیں بلکہ سیاسی ہیں- ان کا مقصد امریکی افواج کے اڈے تباہ کرنا نہیں بلکہ امریکہ اور اس کے عرب اتحادیوں میں فاصلے پیدا کرنا ہے۔ اور سلیمانی کے قتل نے اس مقصد کو کسی بھی چیز سے زیادہ جو ایران کرسکتا تھا اسے پورا کیا ہے۔ سنّی عربوں کا مورال ڈاؤن ہے اور امریکہ و اسرائیل خطے میں اپنے حقیقی دوستوں کے بغیر ایک بار پھر چیزوں کا سامنا کررہے ہیں- دھکا پوری طرح حرکت میں آیا تو کوشنر کی تمام تر کوششوں کا نتیجہ صفر نکلا- اس طرح کے دھکے کے باوجود ایرانیوں کو کس قدر خوشی منانی چاہئیے۔
وہ جو بہت قریب سے توجہ دے رہے تھے وہ اصل میں کئی حقائق کے سبب جانتے تھے کہ سعودی اہی دربار سلیمانی کے قتل پر محتاط ردعمل دے گا- ان کے پاس ٹرمپ کو اپنے ایک اتحادی کے طور شک سے دیکھنے کی وجوہات تھیں- امریکہ کا مفروضہ سٹیٹ آف دا آرٹ دفاعی نظام سعودی آئل تنصیبات پر ڈرون حملوں کا پیشگی پتا نہ چلاسکے۔ اس زخم پر ذلالت مسلط کرنے کا رہا سہا اقدام ٹرمپ کی جانب سے ان امریکن طیاروں کو واپسی کا حکم دیا گیا جو ایران پر بدلے کیے جانے والے حملوں کے لیے بھیجے گئے
اس واقعے نے سعودی عرب کو اپنی پالیسی پر ازسرنو بڑے پیمانے پر نظرثانی پر مجبور کردیا ہے- ایران کے پاس ہوسکتا ہے کہ بہت بڑی بحری یا فضائی طاقت نہ ہو لیکن اس کے پاس اس خطے کے تمام ممالک سے زیادہ مزائیل ہیں- عراق میں امریکی فوجی اڈے پر بدھ کے روز حملے اور اس سے پہلے سعودی عرب پر حملوں نے یہ ظاہر کردیا ہے کہ ایران جانتا ہے کہ ان کو کیسے استعمال کرنا ہے۔ سعودی تیل کی صعنت کو جنگ ہونے کی صورت میں بہت بڑا نقصان ہوگا- ریاض کو اسی لیے پوچھنا پڑ گیا ہے: اگر ایسا ہوتا ہے یہ بات کس حد تک یقینی ہے کہ ٹرمپ ان کی امداد کے لیے آگے آئے گا؟ یہ ذکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ سعودی عرب اپنی معشیت کو کثیر جہتی بنانے کے لیے جو اڑان بھری ہے وہ کریش ہوجائے گی جبکہ اس کی تیل کی انسٹالیشن اور پانی صاف کرنے کے پلانٹس بھی تباہ ہوجائیں گے۔ محمد بن سلمان کو سعودی عرب میں سیاحت کے بڑے منصوبوں کو بھی خیرباد کہنا ہوگا- وار زونز کی سیر کرنے سوائے یو ٹیوب چینلز چلانے والوں کے اور کوئی کرنا نہیں چاہے گا
ٹرمپ سے اعتماد اٹھنے کے بعد اور ایسے ہی ایرانی فوج کی قابلیت دیکھ کر سعودی عرب والوں نے بات چیت کا فیصلہ کیا ہے۔ شدومد سے تہران اور یمن کے حوثیوں سے بیک ڈور چینل مذاکرات ہورہے ہیں تاکہ تناؤ و کشیدگی ختم کی جاسکے۔ حالیہ مہینوں میں سعودی عرب والوں اور ایرانیوں نے اومان، کویت اور پاکستان میں ثالثوں کا سہارا لیا ہے اور مفاہمت کی بات چیت رفتار پکڑ رہی ہے۔عراقی وزیراعظم نے کہا ہے کہ جب سلیمانی کو قتل کیا گیا تو جنرل امریکی سپاہیوں پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی نہیں کررہا تھا جیسا کہ پینٹاگون کہتا ہے بلکہ وہ بغداد میں سعودی-ايران امن بات چیت کو تیز کرنے کے لیے بات کرنے آیا تھا
شاید واشنگٹن میں کسی کو بھی اس کا ادراک کا نہ تھا کہ چیزیں تیزیں سے بدل رہی ہیں- یا شاید انھوں نے کیا اور سلیمانی کو قتل کرنا اس مفاہمت کو روکنے کی کوشش ہو۔ کچھ بھی ہو سعودی عرب والوں کا ناراض ہونا بنتا ہے اور سعودی وفد اوول آفس میں اس ہفتے ملا تھا لیکن اس ملاقات بارے کوئی بیان جاری نہیں ہوا
حملے کے بعد سے ٹرمپ کے قابل اعتماد نہ ہونے کے بارے میں ہر ایک سعودی خدشے کو نشان زد کردیا ہوگا- امریکی فوج نے ایک خط جاری کیا جس میں عراقی پارلیمنٹ کی خواہش پر امریکی افواج کے چلے جانے کا عندیہ دیا لیکن پینٹاگون نے کہا کہ اس خط کو جاری کرنا غلطی تھی- پھر ٹرمپ نے ٹوئٹ کرکے کہا تھا کہ وہ ایران کی ثقافتی اہمیت کی حامل جگہوں پر حملے کرے گا- یہ بات امور
جیسے ہی ایرانی مزائیل عراق میں ایک امریکی فوجی اڈے پر اس ہفتے داغے گئے، ایک ایرانی ایڈوائزر نے ٹوئٹ کیا کہ سعودی عرب مکمل امن پاسکتا ہے۔ یہ بات سمجھ میں آنے والی ہے ککہ ہم آنے والے دنوں میں ہم سعودی عرب اور ایران کے درمیان سعودی عرب اور اسرائیل سے زیادہ قربتیں دیکھ سکتے ہیں- واشنگٹن میں عقابوں کو اس سے خوشی نہیں ہوگی، لیکن یہ زیادہ آسان ہوگا- اور یہ آپشن ایسا ہے جس کا زیادہ انحصار پر ہے۔ آخرکار، تمام عرب ایک لمبے عرصے تک ایران کی بجائے اسرائیل کو اپنا مرکزی دشمن سمجھتے رہے ہیں۔
جو بات یقینی ہے وہ یہ ہے کہ ایران اب زیادہ متحد ہے۔ اس کی معشیت گزشتہ سال دس فیصد سکڑ گئی تھی- اور واشنگٹن اسے پابندیوں کے موثر ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کرتا رہا ہے۔ ملاں مشکل میں تھے اور بری طرح سے ان کو اپنے پیچھے قوم کو متحد کرنے کی ضرورت تھی- سلیمانی کے قتل نے ان کو ایک موقعہ دے دیا- چند ماہ پہلے تیل کی قیمتوں میں اضافے پر احتجاج کی لہر ماضی بعید کا قصّہ لگنے لگی ہے۔ وہ جو اس حکومت کے خلاف سڑکوں پر تھے،اب اس کی حمایت پر سڑکوں پر ہیں- تہران میں گزشتہ سوموار کو جو عوام کا ہجوم باہر تھا اس کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا: مرگ بر امریکہ ۔ مظاہرہ تہران میں اب تک ہونے والے سب سے بڑے مظاہروں میں سے ایک تھا
ایران کے جوابی حملے کے بعد ٹرمپ کا یہ کہنا،’ سب کچھ ٹھیک ہے’ اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ اب اس معاملے کو ختم ہوتا دیکھ رہا ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے اس واقعے کا انجام یوں ہوتے دکھایا ہے: ہم نے ابھی ‘امریکی شر کی مغربی ایشیا میں موجودگی’ کے خاتمے کے آغاز کو ہوتے دیکھا ہے۔ ٹرمپ کے لیے، یہ بے زار کرنے والا مقام ہے۔ اس نے تو ایران کو اس کے مڈل ایسٹ پر کنٹرول پر کمزور کرنے کا آغاز کیا تھا۔ لیکن اس کا اختتام اس نے اس کنٹرول کو ایک پلیٹ میں رکھ کر ملّاؤں کو پیش کردیا ہے۔
(مترجم: عامر حسینی)