معصوم رضوی
بالاخر نیب کا بوریا بستر لپیٹ دیا گیا، حکومت اور اپوزیشن تو اس سے پہلے ہی ایک پیج پر آ چکے تھے،
تحریک انصاف کے رہنما خم ٹھوک کر کہتے رہے نہ نیب انہوں نے بنائی، نہ مقدمات، تو حضور پھر نیب کے پر کیوں کاٹے جا رہے ہیں اسکا جواب حکومت کے کسی وزیر کے پاس نہیں، بس آئیں، بائیں شائیں کر کے رہ جاتے ہیں۔ یہ بتانے سے گریز کرتے ہیں کہ وزیراعظم کے دائیں بائیں نظر آنیوالے محترم قائدین کے خلاف نیب ریفرنسز تیار ہیں، ظاہر ہے کہ نیب کو ریڈ لائن کراس کرنے کی اجازت تو نہیں دی جاسکتی، اپوزیشن پہلے ہی نیب کے ہاتھوں پریشان حال ہے تو مل بیٹھنے کا موقع ڈھونڈا جا رہا تھا عرصہ دراز سے، اللہ بھلا کرے ایکسٹینشن کی سیاسی مفاہمت نے یہ موقعہ فراہم کر دیا تو پہلی کلہاڑی نیب پر ہی گرنا تھی۔ نیب پر پہلے ہی صرف اپوزیشن کے خلاف ریفرنسز کے صورت سیاسی انتقام کا الزام لگتا رہا اور ظاہر ہے نیب اس تاثر کو ختم کرنا چاہتی تھی، اب بی آر ٹی، مالم جبہ، ہیلی کاپٹر جیسے عظیم الشان ریفرنسز فائل ہو جاتے تو تحریک انصاف کا بیانیہ ہی نہیں بلکہ حکومت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ سو پارسا حکومت گناہگار سیاستدانوں کیساتھ ایک ہی دسترخوان پر بیٹھ گئی۔ اب تاجر بھی خوش ہیں اور بیوروکریٹ بھی، اپوزیشن بھی خوش ہے اور حکومت بھی، رہ گئے عوام تو انکی اوقات ہی کیا ہے، ماضی کے سارے اعلانیہ اور غیر اعلانیہ این آر اوز بھی بھگتے تھے اور اب درجن بھر افراد کی کھربوں کی کرپشن بھی بائیس کروڑ عوام جھیلیں گے۔
یہ درست ہے کہ نیب قوانین تجربہ کار سیاسی جماعتوں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی دین ہیں، میری ذاتی رائے میں نیب کو جو ڈریکولائی اختیارات دیئے گئے تھے جدید دنیا میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی، ایک ہی ادارے کو ضابطہ کار، تحقیقات اور فیصلوں کے حقوق، صرف الزام پر قید کرنے اور ہتھکڑی لگانے کا اختیار نہ صرف ایک عجوبہ بلکہ آئین و بنیادی انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔ جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں نیب نے نہ صرف ان اختیارات کا بلاروک ٹوک، سوچ سمجھ اور بے دریغ استعمال کیا بلکہ ایف بی آر، ایس ای سی پی، اسٹیٹ بینک اور دیگر سرکاری اداروں کے اختیارات کو بھی سلب کر کے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ بہرحال ماشااللہ چیئرمین نیب شائد موجودہ پاکستان کے سب سے زیادہ بااختیار شخص ہیں، سر تا پا مجاہدانہ تقاریر، جہادی عزائم اور خودکش اقدامات نے بھی حکومت اور اپوزیشن کو ایک پیج پر آنے پر مجبور کرنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ چیئرمین نیب اس حقیقت کو نہ جان سکے کہ وہ، انکا ادارہ اور تمام کروفر بس ایک قانون کی مار ہے۔ نیب کی شہ زوری اور من مانیاں اپنی جگہ مگر جناب اپوزیشن اس کو سیاسی انتقام قرار دیکر ذمہ دار حکومت کو گردانتی رہی ہے اب جبکہ نیب کے پر کتر دیئے جائینگے اور واجد ضیاء والی ایف آئی اے کارروائی کریگی تو دوش کسے دیا جائیگا، دیگر سرکاری ادارے مقدمات قائم کرینگے تو ذمہ دار کس کو ٹہرایا جائیگا۔ 1949 ء سے اب تک کرپشن کے خلاف ادارے بنتے اور ٹوٹتے رہے، سیاستداں اندر اور باہر ہوتے رہے، ترازو کے پلڑے جھکتے اور اٹھتے رہے، نہ کرپشن رکی نہ سیاسی انتقام کے نعرے، سو کرپشن آج بھی زندہ جاوید ہے۔ یہ حقیقت بہرکیف تسلیم کرنی پڑیگی کہ پاکستان میں کرپشن کے خلاف احتساب کے نام پر ہمیشہ سیاست ہوئی، موجودہ صورتحال میں جو نیب کے پھندے میں نہ آیا اس پر اے این ایف کا جال ڈال دیا گیا سو نتیجہ یہ کہ رانا ثنااللہ کا منشیات کیس حکومت کے گلے میں پڑا ہے۔
آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے بارے میں کسی کو شک و شبہ ہو مجھے تو ہرگز نہیں تھا کیونکہ شیخ رشید جیسا جید، جہاندیدہ اور برگزیدہ سویلین ایکسپرٹ جب ببانگ دہل کہہ رہا ہو کہ جن کا معاملہ ہے وہ خود طے کر لیں گے تو بھلا شک و شبے کی گنجائش ہی کیا رہ جاتی ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ پاکستان میں سویلین بالادستی کی تابعداری ایک بھرپور تاریخی باب ہے، دو تین چھوٹی جماعتوں کے سوا سب نے قومی سلامتی، حب الوطنی اور سیاسی مفاد کو پیش نظر رکھا، شاید اسے ہی جمہوریت کا حسن کہتے ہیں۔ کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ، ہو سکتا ہے چند سالوں بعد مفاہمتی سہولیات اٹھانے والے قائدین گلوگیر آواز میں اس عمل پر قوم سے معافی مانگتے نظر آئیں تو پریشان نہیں ہوئیے گا چونکہ یہ اسکرپٹ کا حصہ ہے۔ بہرحال یہ ضرور ہوا کہ اس دوران شہباز شریف اور آصف زرداری کی مفاہمانہ سیاست نے نواز شریف اور بلاول بھٹو کی نظریاتی سیاست کو شکست دیدی۔ دونوں جماعتوں کے نظریاتی قائدین و کارکنان سکتے میں ہیں، ووٹ کو عزت اور پارلیمانی بالادستی کے نعرے لگوانے والے ووٹر سے منہ چھپائے پھر رہے ہیں۔ شاید ن لیگ کو آج چودھری نثار کے مشورے یاد آ رہے ہونگے، شاید پیپلز پارٹی کو آج رضا ربانی اور اعتزاز احسن برے لگ رہے ہونگے اور شاید، شاید اسٹیبلشمنٹ کو پرانے دوست یاد آ رہے ہونگے۔ آپس کی بات ہے فواد چودھری کو کوئی سنجیدہ لیتاہے؟ حتیٰ کہ تھپڑزدگی کا شکار بھی نہیں مگر انکا یہ موقف وزن رکھتا ہے کہ ایک بار سیاستدانوں، فوج، عدلیہ سمیت اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ بیٹھ کر نیا عمرانی معاہدہ کرنا ہو گا۔ فواد چودھری کی بات کو شعوری یا لاشعوری طور پر اب تک حکومت یا اپوزیشن کی جانب سے کوئی توجہ نہیں ملی مگر شاید یہی مسئلے کا حل ہے، اداروں کے درمیان مذاکرات قومی سلامتی، حب الوطنی کے خلاف نہیں ہوا کرتے، دائرہ کار کی حد بندیوں پر غور کرنے میں حرج ہی کیا ہے؟
یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ 35 سال اسٹیبلشمنٹ کی چھتر چھایہ میں رہنے کے بعد اگر کوئی اردووان بننا چاہے تو راندہ درگاہ ٹہرتا ہے سو یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ اب اگر کوئی مہاتیر بننا چاہے تو اسکے ساتھ بھی یہی سلوک ہو گا۔ ذرا نیب کے پر کترنے سے پہلے کی صورتحال ملاحظہ فرمائیں، تمام مرکزی سیاسی ملزمان و مجرمان سلاخوں کے باہر آ چکے ہیں، اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں میں محدود پیمانے پر ناراضگی ضرور موجود ہے مگر صورتحال قابو میں ہے۔ زرداری صاحب کا اطمینان اور مریم نواز کی سیاسی دھند میں لپٹی خاموشی پراسراریت کو بڑھا رہی ہے، شعلہ بیاں حکومتی وزرا کے لہجے تبدیل ہوتے جا رہے ہیں، تو حضور کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے، اسے مدر آف این آر اوز بھی تو پکارا جا رہا ہے۔ خیر جناب سب کے مسئلے حل ہو چکے بس پرویز مشرف کا مسئلہ حل ہونا باقی ہے پھر شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پی لیں گے، تو پوچھنا یہ تھا حضرت کے این آر او ہوتا کیا ہے؟