سترہ سالہ دوشیزہ حسن و جمال کا ایسا نمونہ تھی کہ کوئی بھی دیکھے تو بول اٹھے:
رُخ پر ہیں رقص فرما کشمیر کی بہاریں
حوریں اِرم سے آکر زُلفیں تری سنواریں
لڑکی واقعی کشمیرن تھی ۔ لڑکا بھی بہت دلکش چہرے کا مالک تھا ۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا اور ساتھ ہی دلوں کا بھی۔اب شادی میں کیا رکاوٹ ہوسکتی تھی مگر شادی میں تو رکاوٹ ہی رکاوٹ تھی اس لیے کہ لڑکی کشمیرن برہمن زادی تو لڑکا مسلمان!
اردو اور فارسی کے پرستار پنڈت موتی لعل نہرو ایک بہت امیر اور کامیاب بیرسٹر تھے بعد میں وہ دوبارکانگریس پارٹی کے صدر بنے ۔ انھوں نے ایک اخبا ر بھی نکالا جس کا نام Independence تھا سید حسین نامی ایک نوجوان ان کا اسسٹنٹ تھا جو اپنے ’’ باس ‘‘ کی طرحدار بیٹی وجے لکشمی پر فدا ہوگیا۔مگر دونوں کی شادی تو ممکن نہیں تھی۔
’’ظالم سماج‘‘ ایسے بندھن کو ہرگز قبول نہیں کرسکتا ۔اب ان کے سامنے ایک ہی راستہ تھا اس گھٹے ہوئے ماحول سے نکل کر یورپ کے آزاد ماحول میں زندگی گزاری جائے لہذا وجے لکشمی نہرو اور سید حسین سمندری جہاز پکڑنے کے لیے بمبئی پہنچ گئے تاکہ سوئز کے اُس پار نئی زندگی کا آغاز کریں۔ مگر جہاز پکڑنے کے بجائے وہ خود پکڑ لیے گئے ۔
روتی دھوتی آنسو پروتی کنیا لوٹ آئی۔ باپ نے اسے ’’اصلاح‘‘ کے لیے اپنے نئے دوست موہن داس کرم چند گاندھی کے آشرم بھیج دیا۔ جہاں دریائے سابر متی پر ساری مستی ختم ہوگئی پھر جلد ہی کنیا دان بھی ہوگیا اور سرکش لڑکی کا بیاہ ایک مرہٹے بیرسٹر پنڈت سیتا رام سے ہوگیا ۔
وجے لکشمی اور سید حسین کے فرار کے موقعے پر اکبر الہٰ آبادی نے ایک نہایت مناسب شعر لکھا
دختِ مہرو کو لے کے صاف اڑا
’’انڈی پینڈنس‘‘ اسی کو کہتے ہیں
یاد رہے کہ اکبر الہٰ آبادی پنڈت موتی لال نہرو کے دوست تھے اور ان کے مکان ’’عشرت منزل‘‘ ہی کے ترجمے کے طور پر پنڈت جی کے گھر کا نام ’’آنند بَھوَن‘‘ رکھاگیا تھا ۔
وجے لکشمی پنڈت نے نوے سال کی عمر پائی لیکن وہ سید حسین کو بھلا نہیں سکیں۔ مزے کی بات کہ وجے لکشمی کی بیٹی نین تارا بھی ایک مسلمان لڑکے کو پسند کرنے لگی۔ یہ تھا انسپکٹر آف اسکولز اسد اللہ کاظمی کا بیٹا نور اللہ کاظمی۔ مگر ان دونوں کی بھی شادی نہ ہوسکی۔
جواہر لال لڑکپن ہی سے حسن پرست تھے ۔ انھوں نے انگلینڈ میں سات سال گذارے اور بہت خوش رہے ۔ وہاں کے ’’آزاد ‘‘ ماحول میں کئی گرل فرینڈز بھی ان کی زندگی میں آئیں جب موتی لعل کو جواہر لال ہی کے خطوں کے ذریعہ ان ’’ حرکتوں‘‘ کا علم ہوا تو انھوں نے اپنے بیٹے کو وہی نصیحت کی جو اکبر الہٰ آبادی نے اپنے صاحبزادے عشرت کے لیے کی تھی کہ ’’ یورپ کی حسیناؤں سے دل مت لگاؤ اور ہندوستان میں بیاہ رچاؤ‘‘ موتی لال نے بھی لکھا کہ تمہاری پتنی تو صرف کشمیری برہمن لڑکی ہی ہوسکتی ہے ۔ اس طرح دہلی کے بہت دولت مند کشمیری سیٹھ جواہر مل کی لڑکی کملا کی شادی جواہر لال سے ہوگئی ۔ کملا کے دونوں طرف جواہر ، باپ بھی جواہر اور پتی بھی جواہر ۔ پھر شادی میں جواہرات کی بھر مار کیوں نہ ہوتی ۔
مگر جواہر لال کی جولانیاں برقرار رہیں۔ وہ اپنی سیدھی سادی بیوی کے مقابلے میں اپنی طرح دار بہن وجے لکشمی کے زیادہ قریب تھے ۔ دونوں کے درمیان Platonic Loveتھی جو کبھی Appetentنہ بنی (لارڈ بائرن کی محبت کی طرح) لیکن یہ کشش کملا کو بہت کھلتی تھی اور بعد میں جواہر لعل کی بیٹی اندرا بھی اپنی بڑی پھپھو سے ’’رقیبانہ‘‘ نفرت کرنے لگی تھی ۔ اندرا اپنے خطوں میں اپنے باپ کو ’’ڈارلنگ‘‘ لکھتی تھی ۔
جواہر لال کی تعلیم اردو سے شروع ہوئی تھی پھر وہ انگلستان جا کر انگلش کے سحر میں گرفتار ہوئے ۔ وہ بہت شاندار انگلش لکھتے تھے لیکن اردو سے ان کا تعلق قائم رہا خصوصاً شاعری سے ۔ انھوں نے اپنے دوست فراقؔ گورکھپوری کے ساتھ مشاعروں میں بھی شرکت کی اور جوشؔ ، جگر ؔ‘ ساغرؔ نظامی اور بچن ؔجی وغیرہ کے قریب آگئے۔ جب بمبئی کی ایک محفل میں پروڈیوسر سہراب مودی کی ہیروئن اہلیہ مہتاب نے جواہر لال کے سامنے یہ مصرع پڑھا : تم سلامت رہو ہزار برس۔ تو انھوں نے فوراً دوسرا مصرع سنایا ۔ ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار ۔ وہ اداکارہ نرگس کو بھی بہت پسند کرتے تھے۔
جواہر لال کا سارا خاندان جوش و خروش کے ساتھ سیاست میں حصہ لیتاتھا ۔کملا نہرو بہت دھان پان تھی اور بیمار بھی۔پھر بھی وہ سیاسی مظاہرں میں شریک ہوتی اور جان کو خطرے میں ڈالتی تھی ۔ 1930 میں وہ عورتوں کے ایک جلوس کی رہنمائی کرتے ہوئے انگریز سرکار کے خلاف نعرے لگارہی تھی کہ اس کی طبیعت خراب ہوگئی اور وہ بے ہوش ہو کر تپتی دھوپ میں سڑک پر گر گئی ۔
اب یہاں بنتا ہے ایک فلمی سین ۔ ایک کالج کا ہوسٹل قریب تھا اور لڑکے بڑی بے نیازی سے یہ جلوس دیکھ رہے تھے جب کملا نہرو گری تو ایک سرپھرا لڑکا دیوار سے کود کر آگے بڑھا ۔ کملا کو گود میں اٹھا کر شیڈ میں لے گیا اور فوراً اس پر عاشق ہوگیا ۔ زندگی بھر اس کے قریب رہا اور کملا کی موت کے وقت بھی موجود تھا ۔
یہ تھا ایک پارسی نوجوان فیروز گاندھی جس نے مشہور ادارے لندن اسکول آف اکنامکس میں تعلیم حاصل کی تھی ۔1936 میں کملا نہرو کا انتقال ہوگیا۔ اس کے کچھ عرصے بعد کانگریس کا سالانہ اجلاس کراچی میں منعقد ہوا ۔اس وقت ایک چھوٹی سڑک کملا نہروکے نام کی گئی ۔ مزار قائد کے قریب یہ سڑک Kamla Nehru Roadاب بھی موجود ہے ۔ یہاں نامور اداکار لطیف کپاڈیا ( کاپڑیا) کا مکان ہے جہاں چند سال پہلے تک یاران میکدہ یعنی انور مقصود ‘ لطیف کپاڈیا ، کمال احمد رضوی، اسماعیل پپّو وغیرہ کی محفل جمتی تھی اور یہیں ’’عتیقہ اوڈھو‘‘ کو اردو سکھا کر اداکارہ کے طور پر لانچ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
کملا کی رحلت کے بعد فیروز گاندھی اندرا کی طرف متوجہ ہواکیونکہ بیٹی بھی ماں کی جھلک رکھتی تھی ۔ اندرا جو رابندر ناتھ ٹیگور کے شانتی نکیتن کے آزاد اور رومانی ماحول میں جوان ہوئی تھی فیروز میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی تھی ۔ گرودیو کے اسکول میں اس کی ملاقات نوجوان بلراج ساہنی سے بھی ہوئی تھی جو فیروز سے زیادہ دلکش اور Dashingتھا (یونس خان سے بھی اس کی دوستی تھی)مگر فیروز نے ہمت نہیں ہاری اس امید پر کہ ’’ حسینہ مان جائے گی‘‘ اور پھر حسینہ واقعی مان گئی ۔
اندرا جنگ کے زمانے میں جرمن مقبوضہ فرانس کے رنگین علاقے Montmartreکے مشہور نائٹ کلب مولین غوژ Moulin Rougeمیںعریاں ڈانس دیکھنے گئی ( وہ بھی کوئی راہبہ تو نہیں تھی) کہ سیڑھیوں پر فیروز نے اس کو پکڑ لیا بلکہ اس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔ اندرا اس کی ’’ جسارت ‘‘ پر بہت حیران ہوئی اور اس نے ہاں کردی۔
جواہر لال نہرو کو جب خبر ہوئی تو وہ بہت ناراض ہوئے ( بالکل اپنے باپ کی طرح جو وجے لکشمی اور سید حسین کی ’’دوستی‘‘ کو برداشت نہیں کرسکے تھے ) اور انھیں اس معاملے میں گاندھی جی سے بھی مدد طلب کی تھی ۔ گاندھی جی نے بچوں کی طرح کھلکھلاتے ہوئے کہا ’’ وہ چھوکرا گجراتی ہے ۔ میری طرح اور ’’گاندھی‘‘ ہے میری طرح ۔میں تو خوش ہوں ‘‘ اگر چھوکرے کا نام فیروز حسین ہوتا تو شاید باپو اتنے خوش نہ ہوتے۔جواہر لال سوچ رہے تھے کہ اندرا سے شادی کرنے کے لیے تو راجے مہاراجے بھی تیار ہیں۔ فیروز گاندھی کیوں؟
لیکن اندرا بھی Iron ladyتھی اس نے غیر دلکش اور غیر ہندو سر پھرے گاندھی سے شادی کر ہی لی ۔ واضح رہے کہ ’’گاندھی‘‘ گجرات کے عطر فروش خاندانوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اور پاکستان میں بھی بہت سے مسلمان ’’گاندھی ‘‘ موجود ہیں ۔ اندرا اور فیروزنے بھی ہنی مون کے لیے کشمیر کو منتخب کیا کہ 1942میں یورپ جانا ممکن نہیں تھا ۔
پہلے ایک فلمی سین کا ذکر ہو چکا ہے اب وہی سین دوبارہ پیش ہوتا ہے مگر اداکار مختلف ہیں۔ لارڈ لوئی ماؤنٹ بیٹن سولہ سال کی عمر میں زار نکولس کی تیسری بیٹی میری پر عاشق ہوا تھا اور اس کے باپ نے اپنا خاندانی جرمن نام بیٹن برگ Battenberg پہلی جنگ عظیم کے دوران تبدیل کر کے Mountbatton کر دیا تھا۔
ملکہ وکٹوریہ کا پڑپوتا ہونے کے باوجود وہ سوشلسٹ خیالات رکھتا تھا اور اسے سوشلسٹ لیبر وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹلی(Attlee) نے کمیونسٹ کرشنا مینین کی ’’تجویز‘‘ پر ہندوستان کا آخری وائسرائے بنایا۔ سوشلسٹ نہرو کو وہ بہت پسند کرتا تھا۔ اس کی بیوی یہودی النسل ایڈوینا ایشلی ایک بہت دولت مند‘ خوبصورت اور شوخ و شنگ خاتون تھی۔ (عمران خان کی جمائما کی طرح) مارچ 1946 میں جواہر لال سنگاپور روانہ ہوئے۔
ماؤنٹ بیٹن اور ایڈوینا سے ملنے کے لیے۔ جواہر لال اور ایڈوینا کی پہلی ہی ملاقات بڑی ڈرامائی تھی۔ سنگا پور میں بکثرت ہندوستانی موجود تھے۔ اپنے قومی ہیرو کو دیکھ کر وہ آپے میں نہیں رہے۔ ’’نہرو کی جے‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے ایک ریلا ان کی طرف بڑھا اور دھکا پیل میں ایڈوینا فرش پر گر گئی۔ تاریخ سانس روکے یہ سین دیکھ رہی تھی۔ جواہر لال آگے بڑھا اور بڑے اطمینان سے ایڈوینا یعنی مستقبل کی وائسرینا کو گود میں اٹھا لیا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے فیروز گاندھی نے کملا نہرو کو گود میں اٹھایا تھا اور فوراً (فیروز گاندھی کی طرح) حسینہ پر فدا ہو گیا۔
ن م راشد تو فرنگی حسینہ سے اپنے ہم وطنوں کی بے بسی کا انتقام لینا چاہتا تھا لیکن جواہر لال کے ذہن میں انتقام کا کوئی خیال نہیں تھا۔ ایڈوینا نے اسے اپنے انگلستان کے سات سال یاد دلائے جو اس کی زندگی کا بہترین دور تھا اور انتقام کا تو ویسے بھی وقت گزر چکا تھا کیونکہ ’’انگریز کے زندانی ‘‘ جواہر لال کو جلد ہی اقتدار ملنے والا تھا۔ اب یہاں ایک اور بقراطی سوال پیدا ہوتا ہے کیا جواہر لال اور ایڈوینا کی محبت فلاطونی(Platonic) تھی ( یعنی بے ضرر) یا Appetant یعنی
من تو شدم تو من شُدی
ہوتی ہے دل میں گد گدی
تصویروں میں جواہر لال ایڈوینا کا ہاتھ پکڑے نظر آتے ہیں یا کھلکھلا کر ہنستے ہوئے۔ دونوں واقعی ایک دوسرے پر فریفتہ تھے اور یہ ’’فریفتگی‘‘ بھارت کے بہت کام آئی۔
تقسیم ہند سے چند ماہ پہلے جواہر لال کشمیر جانا چاہتے تھے‘ شیخ عبداللہ سے ملنے کے لیے۔ جو مہاراجہ ہری سنگھ کی قید میں تھے۔ اس موقعے پر ماؤنٹ بیٹن نے جواہر لال کو وہاں جانے سے روکا اور کہا ’’وہ علاقہ تو بہر حال پاکستان ہی میں شامل ہو گا۔ وہاں کا خیال چھوڑو۔‘‘ ریڈ کلف ایوارڈ نے گورداسپور پاکستان کے حوالے کیا تھا چونکہ وہاں51 فیصد مسلمان تھے لیکن فوراً ہی فیصلہ تبدیل ہو گیا۔ گورداسپور بھارت کو مل گیا۔
بتوں سے دوستی رکھّو یہ اک دن کام آئیں گے
گنہ گاروں کو بھی جنت کا یہ رستہ دکھائیں گے
فرنگی بت طنّاز نے منتر پھونکا اور جنت نظیرِ کشمیر کا پھاٹک جواہر لال کے لیے کھل گیا‘ ساتھ ہی جہنم کا گیٹ بھی معصوم کشمیریوں کے لیے۔
ماؤنٹ بیٹن کو اپنی بیوی اور جواہر لال کے ’’تعلقات‘‘ کے بارے میں علم تھا۔ ایڈوینا کی بہن ’’میری‘‘ جواہر لال سے سخت نفرت کرتی تھی چونکہ اس نے اس کی بہن کو ’’ہپنا ٹائز‘‘ کر دیا تھا۔ وجے لکشمی اور کرشنا اپنے بھائی کی اس ’’محبت‘‘ سے بیزار تھیں حتی کہ اندرا بھی اپنے باپ کے ’’معاشقے‘‘ پر سخت غصے میں تھی۔ جواہر لال نے تو ایڈوینا کو یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ وہ ماؤنٹ بیٹن کی لندن واپسی کے بعد ہندوستان میں جواہر لال کے ساتھ رہے۔ لندن روانگی کے وقت سابق وائسرینا نے آنسوؤں کا دریا بہا دیا (کوئی فلمی گانا بھی سنا دیا ہوتا)
چھوڑ پریتم کا گھر‘ اب پتی کے نگر
موہے جانا پڑا‘ ہائے جانا پڑا
جواہر لعل جب بھی لندن جاتے ایڈوینا سے ضرور ملتے۔ اور دونوں کے درمیان ’’جذبات سے لبریز‘‘ خطوں کا تبادلہ برابر جاری رہتا۔ اب یہ خطوط قومی سرمایہ ہیں۔
ایڈوینا کی صحت برابر خراب ہو رہی تھی۔ لیکن پھر بھی جنوری 1959 میں وہ دہلی اڑ کر پہنچی تا کہ اپنے Beloved Jawahar سے مل سکے جو چین کی فوجی ’’دخل اندازی‘‘ کی وجہ سے بہت پریشان تھے۔ فروری 1960 میں وہ پھر دہلی آئی اور اپنے محبوب سے ملی۔ یہ دونوں کی آخری ملاقات تھی۔ پھر برٹش بورینو میں 20 فروری60 کو جواہر لال کے محبت بھرے خطوط کو چومتے اور محبوب کی راہ دیکھتے ہوئے وہ دنیا سے چلی گئی۔
تم کو نہ ملی جانِ جہاں فرصتِ دیدار
اب ہم جو چلے ساتھ چلی حسرتِ دیدار
جواہر لال کے لیے اب پریشانیوں کا دور شروع ہو چکا تھا۔ پرتگالی مقبوضہ علاقہ گوا تو آسانی سے مل گیا (جس کی بہت خوشی منائی گئی) لیکن شمالی سرحد پر چینیوں کی سرگرمیاں بڑھتی جا رہی تھیں۔
بنگالی سیاست دان حسین شہید سہروردی (جن کے ہاتھوں سے جوس کا گلاس لے کر گاندھی جی نے کلکتہ میں اپنا مرن برت توڑاتھا) جواہر لال سے بہت ناراض تھے چونکہ انھوں نے متحدہ بنگال کا منصوبہ مسترد کر دیا تھا۔ لہذا سہروردی نے چینی وزیر اعظم چو این لائی کو ہندوستان کی بالائی سرحد پر آگے بڑھنے کا مشورہ دیا تا کہ کشمیر کا مسئلہ بھی پاکستان کے حق میں حل ہو سکے۔ یہاں ہندوستانی فوجوں کو ذلت آمیز شکست ہوئی اور جواہر لال کی صحت تباہ ہو گئی۔
مگر ایڈوینا کی موت کے باوجود جواہر لال کی حسن پرستی قائم رہی۔ ستمبر 1961میں وہ امریکا گئے اور مسز کینیڈی کے سحر میں گرفتار ہو گئے۔ یاد رہے کہ جب صدر کینیڈی اور جیکلن کینیڈی نے فرانس کا سرکاری دورہ کیا تھا تو سارا پیرس صدر امریکا کو بھول کر جیکلن کے حسن کا دیدار کرنے امڈ آیا۔ اس وقت صدر کینیڈی نے اہل فرانس سے کہا ’’میں وہی شخص ہوں جو مسز کینیڈی کے ساتھ آیا ہے۔‘‘ جواہر لال برابر جیکلن سے بات کرتے رہے اور اسے ’’چھوتے‘‘ بھی رہے۔
ارل ماؤنٹ بیٹن تو اپنی بیوی کی جواہر لال سے دوستی کو بڑی فیاضی سے برداشت کرتے رہے لیکن صدر کینیڈی کو یہ بات بالکل پسند نہ آئی کہ جیکلن سے 44سال بڑا ’’مرد بزرگ‘‘ یہ جسارت کرے۔ مگر شاید ایڈوینا کی طرح جیکلن بھی جواہر لال کے کام آئی۔ جب چینی سپاہیوں کی پیش قدمی حد سے بڑھنے لگی تو امریکی صدر نے ایک سخت وارننگ چینیوں کو دی اور زبردست فوجی امداد ہندوستان کو فراہم کی۔جواہر لال امریکی پبلشر کلیر بوتھ لوس کے بھی دوست رہے تھے۔ اور انھوں نے جن خواتین سے دل لگایا۔ وہ سب ’’سفید فام‘‘ حسین اور بے حد دولت مند تھیں۔
جب مارچ 1962 میں جیکلن نے ہندوستان کا دورہ کیا تو ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ ایک استقبالیہ میں ریاست جے پور کے سابق راجہ نے امریکی صدر کی بیوی کا سر عام بوسہ لے لیا جب کہ ان کی حسین رانی گائتری دیوی وہاں موجود تھیں۔ تمام حاضرین سناٹے میں آ گئے۔
جیکلن غصے سے سرخ ہو گئیں لیکن سب چپ رہے یہ سوچ کر کہ یہاں تو ہر ایک دل پھینک ہے اگر جواہر لال میں شری کرشنا کی روح سما گئی ہے تو پھر ہر ہندوستانی گردھر کو مدھوبن میں رادھیکا ناچتی نظر آ رہی ہے اور گوپیوں سے مکھن چرانا تو ہمارا کھیل ہے۔ کام دیو کا یہ پیغام سب کے لیے ہے۔ ایلو را اجنتا کے غاروں میں بھی سب کچھ ہے۔ ہندی فلموں کے گرو دیو امیتابھ بچن، جو اس وقت جواہر لال کے بعد ہندوستان کی سب سے مقبول شخصیت ہیں‘ اس طلسم ہوشربا کو مزید رنگین بنا رہے ہیں اور دعوتِ رقص دے رہے ہیں:
کیا شرم کیا حیا مری سرکار ناچیے
محفل کو چھوڑ کر سرِبازار ناچیے
جواہر لعل نہرو | جہاں بھی گئے رومانوی داستان چھوٖڑ آئے
1.1K
گزشتہ پوسٹ