جیسے عدم نے کہا تھا کہ کون ہے جس نے مے نہیں چکھی اور کون جھوٹی قسم کھاتا ہے تو اسی طور مجھ ایسے لاہوری بزرگوں میں سے کون ہے جو کبھی ہیرا منڈی نہیں گیا اور کون قسم کھا کر یہ کہہ سکتا ہے کہ میں وہاں سے نہیں گزرا…وہاں جانے یا گزرنے سے ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہاں جا کر آپ اپنے دل و جاں سے گزر گئے ہوں…بے شک آپ سرسری گزرے ہوں جیسے کوئی اس جہاں سے گزرتا ہے۔
چلئے میں اقرار کرتا ہوں کہ میں کم سے کم تین بار اس پوری زندگی میں اور زیادہ سے زیادہ چارمرتبہ ہیرا منڈی گیا اور وہاں سے گزرا…ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ شروع میں طوائفوں اور گانے والیوں کا ٹھکانہ بھاٹی اور لاہوری دروازے کے اندر آباد تھا…اقبال اکیڈمی کی شائع شدہ تحقیق کے مطابق علامہ اقبال جب کبھی اس علاقے میں سے گزرتے تو ہمیشہ ایک نہایت ہی معمولی شکل کی خاتون کے پاس ٹھہر کر اس سے کچھ کلام کرتے اور و ہ کہتے کہ اس خاتون کے پاس کوئی نہیں ٹھہرتا تو میں صرف اسلئے ٹھہر جاتا ہوں … لاہوری دروازے کے اندر ابھی تک’’ چوک چکلا‘‘ موجود ہے جس کا نام بوجوہ بدل دیاگیا ہے، بعدازاں یہاں مقیم خواتین اور انکے سازندے سردار ہیرا سنگھ کی شاہانہ حویلی کے آس پاس منتقل ہوگئے اور وہ علاقہ ہیرا منڈی کہلانے لگا…پیشے کی مناسبت سے ساز تخلیق کرنے والے ہنر مندوں کی دکانیں کھل گئیں۔
وہاں ایسے ستاربنائے جاتے تھے جنکے سر برصغیر میں گونجتے تھے، یہاں بنائے ہوئے طبلے کلاسیکی گائکوں کے دل پسند تھے اور پھر اس علاقے کی خوراکیں بھی بے مثل تھیں کہ تماش بین اور یہاں کے مکین ذائقوں کے شیدائی تھے، پھجے کے پائے آج خوراک کا ایک کلاسیک بن چکے ہیں اور وہاں کا حلوہ جانے کیوں اب بھی پلنگ توڑ کہلاتا ہے…چنانچہ میں اقرار کرتا ہوں کہ میں زندگی میں چار مرتبہ ہیرا منڈی گیا۔پہلی بار چار پانچ برس کی عمر میں اپنے ابا جی کے ساتھ گیا، آپ ایک صدمے سے دوچار ہو کر یقینا یہ پوچھ سکتے ہیں کہ وہ ابا جی کیسے تھے جو اپنے چھوٹے سے فرزند ارجمند کو اپنے ہمراہ ہیرا منڈی لے گئے، تو میں تفصیل اس اجمال کی عرض کئے دیتا ہوں کہ منٹو پارک میں تحریک پاکستان کا ایک جلسہ تھا…میرے ابا جی برصغیر کے ہر مسلمان کی مانند قائداعظم کے شیدائی، کبھی مجھے گھسیٹتے ہوئے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کی گراؤنڈ میں لے جاتے جہاں قائداعظم خطاب کررہے ہوتے اور کبھی منٹو پارک کا رخ کرلیتے۔
اس جلسے کے بعد ہم واپس چیمبر لین روڈ پر واقع اپنے گھر کو واپس آنے کیلئے بادشاہی مسجد کے بعد ایک ایسے بازار میں داخل ہوئے جس کا ماحول تب بھی میں نے محسوس کیا کہ قدرے مختلف ہے اور میرے ابا جی نے اس تبدیلی کو محسوس کرتے ہوئے اتنا کہا تھا یاد رکھنا، یہاں اچھے لوگ نہیں آتے، ہم اس بازار کو یاد کرکے رنگ محل اور شاہ عالم کے راستے بانساں والا بازار طے کرکے اپنے گھر پہنچ گئے…لیکن ابا جی کا یہ فقرہ میرے ذہن پر ثبت ہوگیا کہ…یہاں اچھے لوگ نہیں آتے۔ ازاں بعد جب میں ہیرامنڈی گیا، کل تین مرتبہ گیا تو ہمیشہ مجرم محسوس کرتا رہا…دوسری مرتبہ…میرا بچپن کادوست اسے کمال بٹ کہہ لیجئے، انگلستان سے واپسی پر میری اداسی دور کرنے کی خاطر ایک شاندار تانگے میں لے گیا جس کا گھوڑا نخریلے پن میں رنجیت سنگھ کی گھوڑی’’ اسپ لیلے‘‘ سے کم نہ تھا اور تیسری بار میں اپنے ایک دیرینہ ڈاکٹر دوست کے ہمراہ اپنی بیگمات سمیت پھجے کے پائے کھانے گیا اور ہماری کار میں جھانکتے تماش بینوں نے ہماری منکوحہ خواتین کے بارے میں جو کچھ کہا اس کے بعد ہم توبہ تائب ہوگئے۔
آخری بار… اور یہ ایک پروفیشنل مجبوری تھی۔
پاکستان ٹیلی ویژن کے بہت مقبول ڈرامہ سیریل’’ ایک حقیقت ایک افسانہ‘‘ کی شوٹنگ کیلئے ہم ہیرا منڈی گئے…میں ایک صحافی کے کردار میں طوائفوں اور رقاصاؤں کی ذاتی زندگی کے بارے میں تحقیق کر رہا ہوں…مختلف کوٹھوں پر جاتا ہوں اور اتر آتا ہوں…میرا شوٹ مکمل ہوگیا اور پھر عابد علی کا کام شروع ہوا تو میں ایک کیمرہ مین کے ہمراہ وقت گزاری کیلئے بازار میں گھومنے لگا، سخت شرمندگی ہوئی کہ ہر کوٹھے سے کوئی نہ کوئی بت طناز جھانکتی، کوئی پائل کھنکتی اور کہتی…بسم اللہ…تارڑ جی…چلے آیئے…آپ تو ہمارے اپنے ہیں ٹیلی ویژن پر کام کرتے ہیں…یہ طے ہے کہ یہ بدنام زمانہ لوگ بہر طورمحبت کرنے والے لوگ ہیں۔پھر ہیرا منڈی اجڑ گئی…اس کی رونقیں اجاڑ ہوگئیںاس برائی کی بیخ کنی کردی گئی
لیکن یہ برائی دنیا کا قدیم ترین کاروبار ایک آکاس بیل کی مانند ہوتا ہے کہ آپ اسے ادھر سے کاٹتے ہیں تو وہ بیل کسی اور مقام پر نمودار ہونے لگتی ہے، گلبرگ، ڈیفنس اور جوہر ٹاؤن میں یہی آکاس بیل پھلتی پھولتی گئی۔ ہیرامنڈی کی صرف ایک تاریک گلی ایسی تھی جو بدنام تھی بقیہ علاقے میں صرف رقص اور موسیقی کی جھانجھریں چھنکتی تھیں، برصغیر کے مہااستاد موسیقی کے گرو وہاں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے، لازوال گائک جنم لیتے تھے…کلاسیکی موسیقی کا ایک دبستان پرورش پاتا تھا اور ہ کیسے کیسے لوگ تھے جو ان کوٹھوں پر راگ الاپتے تھے، امانت علی خان، برکت علی خان، غلام علی، استاد بڑے غلام علی خان، ملکہ پکھراج…. یہاں تک کہ محمد رفیع اور اقبال بانو… کیا یہ بہتر نہ تھا کہ ہم اس’’ برائی‘‘ کو ایک محدود علاقے میں ہی رہنے دیتے، بجائے اسکے کہ وہ آکاس بیل کی مانند پورے لاہور کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی، رائل پام کلب، جمخانہ کلب، فارم ہاؤسوں اور نجی محفلوں میں ہی جائز ٹھہرتی…وہ جو شیطانگی کے بازار ہیں اب گھرگھر میں کھل گئے ہیں اور وہ گھر جہاں سے کلاسیکی موسیقی اورراگ رنگ کے جھرنے پھوٹتے تھے وہ بند ہوگئے ہیں۔