اسلام کو دین فطرت کہتے ہیں اور جذبات انسانی فطرت کا اہم جزو ہیں۔ اسلام میں جتنی اہمیت دلیل کی ہے اتنی ہی اہمیت جذبات کی ہے۔ خوشی کی خبر سن کر مسکرانا اور غم کی خبر سن کر رونا فطرت انسانی ہے۔ جذبات کی شدت اور ان کے اظہار کا انداز مختلف ہوسکتا ہے لیکن جذبات سے عاری شخص کو آسان فہم الفاظ میں سنگدل کہا جائے گا۔
کہتے ہیں گناہوں کی کثرت بھی انسان کو سنگدل بنا دیتی ہے اور سنگدل شخص کی سب سے بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ اس کے آنسو خشک ہوجاتے ہیں۔ آنسو نرم دل انسان کی پہچان ہیں،چاہے سجدے میں بہیں یا کسی پیارے کی قبر پر۔ اپنوں سے بہت عرصے بعد مل کو خوشی سے رونا اور پیاروں سے اچانک بچھڑ کر رونا، دونوں فطری عمل ہیں۔ نہ کوئی انسان زبردستی ہنس سکتا ہے اور نہ ہی زبردستی رو سکتا ہے۔
قبروں کے حوالے سے بچپن سے لیکر ابتک ایک انتہائی سخت موقف سنتا آیا ہوں۔ اسی موقف کی بنیاد پر مختلف طرز عمل بھی دیکھے ہیں۔ اس موقف کی نظریاتی و مذہبی بنیاد جو بھی ہو لیکن میرے نزدیک اس کا وہ نفسیاتی پہلو ہمیشہ نمایاں رہا جس میں قبر کو ایک مٹی کا ڈھیر، ایک بے وقعت شے، ایک غیر اہم چیز یا زیادہ سے زیادہ ایک مقام عبرت قرار دیا گیا۔ اس نظریہ پر کاربند حلقہ سے تعلق رکھنے والوں نے مختلف انداز سے اپنے نظریات کا پرچار کیا۔ کسی نے فقط تبلیغ پر اکتفا کیا، کسی نے مناظرے کیے، کسی نے فتوے دئیے اور کسی نے خصوصیت کے ساتھ ان قبور اور ان مزارات کو مسمار کیا جن سے فقط چند انسانوں کی نہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں انسانوں کی جذباتی وابستگی تھی۔
یہ سب دیکھ کر ایک سوال ہمیشہ میرے ذہن میں پیدا ہوتا رہا کہ اسلام میں فطرت کے خلاف کوئی چیز نہیں، اس میں جذبات کا اہم مقام ہے۔ تو قبر سے متعلق اتنا سفاک اور اکھڑ نظریہ، جو انسانی نفسیات سے متصادم ہو، کس طرح قابل قبول ہوسکتا ہے؟
انفرادی مثالوں سے قطع نظر، عمومی انسانی نفسیات یہی ہے کہ جب اُس کی ماں چل بستی ہے تو جیسے اس کی زندگی کا چراغ گل ہوجاتا ہے۔ وہ ہستی کے جس کے جدا ہوجانے پر خدا نے اپنے نبی موسی ع کو بھی سنبھل کر چلنے کی تاکید کی تھی کہ اب دعا کیلئے اٹھنے والے وہ ہاتھ نہیں رہے۔ ایسا ہی کچھ باپ کا سایہ سر سے اٹھ جانے پر محسوس ہوتا ہے جیسے تپتی دھوپ میں سر پر سے اچانک سایہ دار درخت ہٹا دیا جائے۔ کسی ضعیف باپ کا جوان بیٹا چلا جائے یا کسی ماں کا شیر خوار بچہ، سب کی دنیا اس وقت تک کیلئے ویران ہوجاتی ہے جب تک وقت مرہم نہ رکھ دے۔ یقینا غم حسین ع ایسی کیفیت میں سب سے بڑا سہارا بنتا ہے لیکن ظاہر ہے صرف ان کیلیے جو اِس سہارے سے متصل ہیں۔
ایسے میں انسان کیلئے اپنے پیاروں کی قبر محض مٹی کا ایک ڈھیر نہیں رہ جاتی۔ بلکہ یہ قبر اس کیلئے اپنے جذبات اور حال دل بیان کرنے کی ایک جگہ بن جاتی ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ بچھڑنے والا اب واپس نہیں آئے گا، انسان باقاعدگی سے اُس کی قبر پر جاتا رہتا ہے، اُس پر پھول ڈالتا ہے، صفائی کرتا ہے، پانی ڈالتا ہے، خوشبو کیلئے اگربتی لگاتا ہے، روشنی کیلئے چراغ جلاتا ہے، ایک برتن میں پرندوں کیلئے پانی رکھ دیتا ہے اور ایک پیالے میں دانہ۔ شیعہ ہے تو قبر کے سرہانے علمِ عباسؑ بھی نصب کروا دیتا ہے۔
یہ سب اُس بچھڑنے والے سے اپنے لگاو کا اظہار کرنے کے انداز ہیں جن کی بنیاد انسانی فطرت ہے۔ وہ اپنے پیاروں کی قبر پر آکر سکون محسوس کرتا ہے۔ لیکن ایک روز اسی قبر کو مسمار کردیا جائے، نشان مٹا دیا جائے اور کتبہ توڑ دیا جائے تو انسان کا دل بھی ٹوٹ کر رہ جائے گا۔ یہ بھی عین انسانی فطرت ہے۔ کوئی اپنی ماں یا اپنے باپ کی قبر کو اس حالت میں نہیں دیکھنا چاہے گا۔ جس قبر پر پھول اور پانی ڈال کر اُسے سکون ملتا تھا، جس پر اگربتی لگا کر وہ مطمئن ہوجاتا تھا کہ یقینا یہ خوشبو اُس کے پیارے تک پہنچ گئی ہوگی، اُسی قبر کو شکستہ حالت میں دیکھنا اُس کیلئے انتہائی تکلیف دہ ہوگا۔
یہ عام انسانی رشتوں کا تذکرہ تھا۔ لیکن اگر یہی سلوک اُس ہستیوں کی قبور کے ساتھ کیا جائے جن کے ساتھ کروڑوں انسانوں کے جذبات وابستہ ہوں تو اُن انسانوں کو ردعمل وہی ہوگا جو آپ جنت البقیع میں شکستہ قبروں کے سامنے دیکھتے ہیں۔
بقیع کی زیارت کرنے والے جانتے ہونگے کہ وہاں کیا ماحول ہوتا ہے۔ جگہ جگہ مختلف زبانوں میں تبلیغ کرنے والے سرکاری وہابی مولوی عین اُن جگہوں پر کھڑے پہرہ دے رہے ہوتے ہیں جہاں لوگوں کی کثیر تعداد کھڑے ہوکر رونا چاہتی ہے۔ یہ مولوی رونے والوں کو طعنے دے رہے ہوتے ہیں کہ یہ تمہاری بات نہیں سن سکتے، تمہارے رونے کا کوئی فائدہ نہیں، یہ رونا بدعت ہے۔
میں نے بھی یہ سب طعنے سنے تھے اور میں یہی سوچتا رہ گیا تھا کہ شدتِ غم میں رونا تو انسانی فطرت ہے، پھر خلافِ فطرت قانون، اسلام کیسے ہوسکتا ہے؟ میرا ذہن یہ تسلیم نہیں کر پارہا تھا کہ یہ جو سامنے شکستہ قبریں ہیں، یہ کسی اور کی نہیں بلکہ دخترِ رسولؑ کی ہیں، اہلیبیتؑ کی ہیں۔
مجھے لاہور کا مومن پورہ قبرستان یاد آتا تھا جہاں ہر جمعہ صبح صبح مجلس کے بعد لوگ پانی کی بالٹی اٹھائے، ساتھ میں پھول اگربتی لیے اپنے اپنے پیاروں کی قبروں کی طرف اس انداز سے چلے جارہے ہوتے تھے جیسے اُن سے ملاقات کو جارہے ہوں۔ وہ قبروں کے سرہانے بیٹھی ضعیف خواتین جو قران، مناجات، حدیث کساء پڑھنے میں مصروف ہوتی تھیں، یا وہ نوجوان لڑکے جو نوحہ سلام پڑھ رہے ہوتے تھے۔ یہ سب اپنے پیاروں سے محبت کی وجہ سے ہی تو یہاں چلے آتے تھے۔ تو پھر اُن ہستیوں کی قبر پر جا کر دل کی بات کرنے، گریہ کرنے اور پرسہ دینے پر پابندی کیوں جن سے مودت رکھنے کا حکم قران میں دیا گیا؟ جب کچھ سمجھ نہ آتا تھا تو دل بے اختیار پکار اُٹھتا تھا کہ خانوادہ رسالت کے مصائب آج تک نہ ختم ہوسکے.
بقیع کی زیارت کیلئے جانے والے لوگ یہاں منتیں مرادیں مانگنے نہیں آتے بلکہ رونے آتے ہیں، تپتی ہوئی دھوپ تلے ان شکستہ قبروں کو دیکھ کر، عقب میں موجود گنبدِ خضری کو دیکھ کر پرسہ دینے آتے ہیں۔ میں نے تو کربلا جانے والے زائرین سے یہ تک سنا ہے کہ وہ کربلا جانے سے پہلے بہت کچھ سوچ کر گئے تھے کہ امام حسینؑ کی ضریح کے سامنے یہ دعا مانگیں گے، فلاں حاجت کی قبولیت کی دعا کرینگے، فلاں نعمت کے ملنے کی آرزو کرینگے لیکن ضریح کے سامنے پہنچ کر تمام حاجات بھول کر یہ سوچ کر روتے رہے کہ پہلی بار مولا حسینؑ کے سامنے حاضر ہوئے ہیں، کیا اچھا لگے گا کہ اُنہیں پرسہ دینے کے بجائے حاجات طلب کرنا شروع کردیں؟ شرمندگی اور غم کے ملے جلے احساس کے ساتھ روتے رہے تھے۔
یہ اُس کربلا کا ذکر ہے جہاں بین الحرمین ہے، حرمِ عباس علمدارؑ ہے، حرمِ امام حسینؑ ہے۔ جہاں کفِ عباسؑ سے لیکر مقامِ شہادت علی اکبرؑ، تِلہ زینبیہ سے لیکر مقام شہادتِ علی اصغرؑ، فرات سے لیکر خیمہ گاہ اور گنجِ شہیداں سے لیکر قتل گاہِ امام حسینؑ تک، ہر مقام کو محفوظ رکھا گیا ہے۔ جب ایک زائر، حسینؑ کے آباد کیے ہوئے اس شہرِ کربلا میں منت و حاجات کو بھول کر ہر لمحہ فقط پرسہ دیتا نظر آتا ہے، تو وہی زائر بقیع کے مسمار شدہ ویران قبرستان میں مادرِ حسینؑ کی شکستہ قبر کو دیکھ کر سوائے گریہ کے اور کیا کرے گا ؟ وہ قبر جس کا نشان بھی بمشکل نظر آتا ہے؟ وہ تو بس زہرا سلام اللہ علیھا کی کھلے آسمان تلے شکستہ قبر دیکھ کر کبھی شکستہ پہلو کو یاد کرے گا اور کبھی مڑ کر گنبدِ خضری کی طرف دیکھے گا۔
نوردرویش