سر زمین کشمیر جتنی حسین، دلفریب، دلکش اور روح افزا ہے کہتے ہیں یہ جگہ اتنی ہی پر اسرار بھی ہے۔ جل دیو اور مہا دیو کی لڑائی سے لیکر آج کے خلائی دور تک روئے زمین کی اس فردوس میں سیکڑوں، ہزاروں حیرت انگیز داستانوں نے جنم لیاہے، ان میں دیو مالائی داستانیں بھی ہیں اور تعجب خیز حقائق بھی۔
آپ کو یا د دلتے چلیں کہ اس وقت ہم جس کتاب کا مطالعہ کر رہے ہیں، اس کا نام تاریخ کشمیر ہے۔ اسے گیارہ سو اڑتالیس میں محمد اعظم نے فارسی میں لکھا تھا۔ پھرسنہ 1846 میں دہلی کالج کے استاد اشرف علی نے اس کا اردو مین ترجمہ کیا۔ اس وقت اس کتاب کا آخری باب ہمارے سامنے ہے جس کا تعلق کشمیر سے ہے، اس میں مصنف نے کشمیر کے عجائبات کا ذکر چھیڑا ہے اور وہاں کے کے پر اسرار چشموں، حوضوں ، جھیلوں، دریاؤں ، غاروں اور عمارتوں کی داستانیں بیان کی ہیں۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ عجائبات کہ ان قصوں کا مستند ہونا ضروری نہیں، اس طرح کی باتیں سینہ بہ سینہ چلا کرتی ہیں اور لوگ انہیں درست مان لیتے ہیں، مورخ انہیں یکسر مسترد نہیں کرتے یونکہ یہ قصے مکمل طور پر صحیح ہو یا نہ ہوں ، ان کی تہہ میں کسی حقیقت کا چھپا ہونا قیاس سے بعید نہیں۔ باقی مصنف کی زبانی۔
اورنتی پورہ میں ایک حمام تھا، اس کے گلخن میں ہمیشہ چراغ روشن رہتا تھا اور اس کے سبب وہ حمام گرم رہتا ۔ لوگ بیان کرتے ہیں کہ حکیم بو علی سینا نے وقت ورود کشمیر کے یہ حکمت کی تھی۔ اس وقت سے سو برس آگے ایک شخص نے باراہ دریافت کرنے حکمت کے چراغ کو بھجا دیا، پھر بہتیرا ہی سر پٹکا، چراغ روشن نہ ہوا۔
اوپر گنہ ناکام موضع کونہ سور میں ایک چشمہ ہے جب کہ وہاں فصل کے بونے کا وقت ہوتا ہے تو زمیندار جمع ہوتے ہیں اور بکرا ذبح کر کے کھانا پکا کر اس پر فاتحہ دے کر سلام کرتے ہیں۔ خدا کی قدرت پانی اس چشمے سے جاری ہوتا ہے۔ یہاں تک کے خوب طرح سے کھیت بھر جاتے ہیں اور جب پانی کی احتیاج نہیں ہوتی، اسی طور کھانا پکا کر فاتحہ دیتے ہیں، پانی بند ہوجاتا ہے۔
پرو گنہ ویر ناگ میں ایک غار ہے اور اس غار میں ایک چشمہ ہے۔ اس چشمے میں بارہ مہینے یخ جما رہتا ہے۔ اگر کوئی اس غار میں اتر کر تھوڑا سا یخ ٹکڑا کھاتا ہے ، مارے مزے کے ہونٹ چاٹتا رہ جاتا ہے، اور جبکہ اس یخ کو باہر لاتے ہیں تو فوراً ہوا کے لگتے ہی مانند بلور کے پتھر ک طرح سخت ہوجاتا ہے۔
یہ تھیں چند پر اسرار داستانیں، یہاں تاریخ کشمیر کے مصنف کی یہ بات دہرانے کو جی چاہتا ہے کہ ’’ جھونٹ سچ اس کا راوی کی گردن پر!‘‘۔
( رضا علی عابدی کی کتاب، ’’ کتابیں اپنے آبا‘‘ کی سے اقتباس)