"ہیپی برتھ ڈے مرتضیٰ جی”
پچھلے چار برسوں کے دوران میں نے بہت بار تمہاری تصویریں دیکھنے کی کوشش کی لیکن ایسا نہ کرسکی۔ کیونکہ جب کبھی بھی آتے جاتے میرا سامنا اچانک تمہاری تصویر سے ہوا، دل سے ایک ہی آواز آئی ” میری زندگی کے وہ آخری دن "۔
۔
اِس سال میں نے تمہاری تصویریں دیکھنے کی ہمت کرلی۔ چند نوجوان لوگوں کے گروپ کا بہت شکریہ جن سے میں اس برس ملی۔ ذیشان اور سلمان، ان دونوں نے تمہارا بہت خوبصورت پینسل اسکیچ بنایا ہے۔ اس سکیچ نے مجھے وہ کرنے کی طاقت دی جو میں پچھلے چار برس سے کرنے کی ہمت نہیں کر پارہی تھی۔ میں تصویروں میں تمہاری معصوم اور چمکدار آنکھوں کا سامنا نہیں کر پارہی تھی۔
۔
میری زندگی وہیں رک گئی تھی جب تم دنیا سے چلے گئے تھے۔ اب میں تب تک دوبارہ نہ جیوں گی جب تک ایک دن تم سے دوبارہ نہ مل لوں گی۔ جہاں تمہاری جدائی نے مجھے توڑ کر رکھ دیا، وہیں میری حالت اُس پرندے جیسی بھی کردی جو اپنا گھونسلا اُجڑ جانے پر بے چینی اور کرب کا شکار ہوتا ہے۔ تمہاری بہن کیلئے میرے پاس خاندان جیسی بنیادی ضرورت نہیں ہے۔ میں خاموش ہوجاتی ہوں جب وہ مجھ سے پوچھتی ہے کہ اُس کی فیملی، اپنے دوستوں جیسی کیوں نہیں ہے۔ میرے پاس کوئی ایک بھی جواب ایسا نہیں ہے جس سے میں اُسے مطمئن کر سکوں۔
۔
آج کا دن بہت سی وجوہات کی وجہ سے ایک بہت جذباتی دن تھا، بلکہ گزشتہ بہت سے دن ایسے ہی تھے۔ دراصل آج او ۔ لیولز کے رزلٹ کا اعلان ہوا ہے۔ میں پورا دن تمہارے کلاس فیلوز کے بارے میں سوچتی رہی جو شدت سے اپنے رزلٹ کا انتظار کرتے رہے ہوں گے۔ پچھلے دنوں میں پوری کوشش کرتی رہی کہ میں اِس بارے میں بالکل نہ سوچوں۔ اپنے آپ کو وہ حقیقت سمجھانے کی کوشش کرتی رہی جو مجھے تم اور تمہارے بابا کے بعد قبول کرنی تھی۔ لیکن کیا کروں، ذہن میں "آج تم ہوتے تو ایسا ہوتا” جیسے خیالات کا ایک سیلاب ہے جو روکے نہیں رکتا۔ مامتا کو کون سمجھائے؟
۔
آج میں سوپر مارکیٹ گئی تھی۔ جب مجھے پلاسٹک کے تین شاپنگ بیگ دئے گئے تو میں نے ایک واپس کردیا۔ ایسا کرتے ہوئے مجھے محسوس ہوا جیسے میں کہہ رہی ہوں "ہیپی برتھ ڈے مرتضی جی”۔ وہ دن یاد کرتے ہوئے جب تم سوپر مارکیٹ سے چیزیں اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں اُٹھائے باہر آتے تھے، پلاسٹک کے شاپنگ بیگ لینے سے منع کردیتے تھے اور مجھے وہ تمام سبق سناتے تھے جو تمہیں تمہارے سائنس کی ٹیچر، سر وحید دیا کرتے تھے۔ شاید یہی ایک تحفہ ہے جو میں تمہیں آج بھیج سکتی ہوں، سوپر مارکیٹ میں پلاسٹک کا ایک شاپنگ بیگ واپس دے کر۔
۔
میری طرف سے مرتضی کے تمام کلاس فیلوز کو بہت بہت مبارک جنہوں ںے اپنا او۔لیولز کا امتحان پاس کیا ہے۔ میں اپنی اور مرتضی کی طرف سے اُن سب کو بہت سا پیار بھیج رہی ہوں۔ ساتھ ساتھ یہ بھی سوچ رہی ہوں کہ ایسا ہی پیار مرتضی بھی مجھے بھیجے گا۔ ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تحریر دراصل شہید ڈاکٹر علی حیدر کی زوجہ محترمہ فاطمہ علی حیدر کے انگریزی مضمون کا ترجمہ ہے۔ ڈاکٹر علی حیدر ماہر امراض چشم اور ان کا گیارہ برس کا مرتضیٰ حیدر جنہیں 2013ء کو لاہور میں کالعدم سپاہ صحابہ کے دہشت گردوں نے گولیاں مار کر قتل کردیا جب وہ اپنے بیٹے کو اسکول چھوڑنے جارہے تھے۔ یہ خط مرتضیٰ حیدر کی والدہ نے اپنے بیٹے کی سالگرہ پر لکھا تھا۔ میں چاہ کر بھی اس ترجمے میں وہ کیفیت اور درد نہیں پیدا کرسکتا جس کا اظہار اُس دکھی ماں نے اپنی تحریر میں کیا ہے۔ ہاں اُن کا انگریزی مضمون پڑھتے ہوئے کئی بار دل ڈوبتا ہوا ضرور محسوس ہوا۔
میں نے تو بس ایک کوشش کی ہے کہ اُن کا پیغام انگریزی کے ساتھ ساتھ اُردو میں بھی لوگوں تک پہنچ جائے۔ صرف یہ بتانے کیلئے کہ جانے والے تو دنیا سے چلے جاتے ہیں، لیکن اُن کے پیچھے رہ جانے والے کس کیفیت سے گزرتے ہیں، شاید یہ پڑھ کر ہمیں کچھ اندازہ ہوسکے۔ فیملی یونٹ کیسے بکھرتے ہیں اور بقول محترمہ فاطمہ علی حیدر، گھونلسے کیسے اُجڑتے ہیں، شاید اس کا بھی کچھ اندازہ ہوسکے۔
۔
ترجمہ: نور درویش