شفقنا پاکستان: گزشتہ ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطین میں تنازعہ کے حل کے لیے اپنا نام نہاد امن منصوبہ پیش کیا تھا ۔ ٹرمپ نے اسے’ صدی کا بہترین امن منصوبہ‘ قرار دیتے ہوئے، اسےمسئلہ کے حل کے لیے اب تک پیش کیے گئے تمام منصوبوں سے بہتر اور فلسطینیوں کے لیے سب سے مناسب قرار دیا تھا۔ لیکن اب اپنے اسی منصوبے کو وہ ’ امن سے خوشحالی تک ‘ کا نام دے رہے ہیں ۔
صدر ٹرمپ اپنے اس منصوبے کو کوئی بھی نام دیں یہ امن منصوبہ نہیں کہلا سکتا ۔ در حقیقت یہ منصوبہ فلسطینیوں کی اسرائیل کے وحشیانہ جبر و تشدد کے قابض اقتدار سے آزادی کی خواہش اور اپنے لیے ایک آزاد و خود مختار اور قابل عمل ریاست میں، اپنے گھر کا خود مالک بننے کی امید کی تضحیک ہے۔ اور اس منصوبے کو اب ’ امن سے خوشحالی تک ‘ کا نام دے کر سراہنا دوسروں کو بے وقوف بنانے اور در پردہ اسرائیلی قابض حکومت کے جابرانہ اقدامات کی تائید ہے ۔
اِس منصوبے سے فلسطینیوں کو قطعاً کچھ حاصل نہیں ہو سکتا اور یہ منصوبہ 1948 سے اقوام متحدہ کی اُن قراردادوں کے بھی سراسر خلاف ہے جن میں فلسطینی علاقوں کی واپسی کے ساتھ ساتھ یوروشلم کو اِن علاقوں کا حصہ قرار دیا گیا ہے ۔ دوسری طرف ٹرمپ کے اس نام نہاد امن منصوبے پر عملدرآمد سے اسرائیل کو چاندی کی تھالی میں وہ سب کچھ مل سکتا ہے جسے اسرائیل کے قیام کے وقت قومیت پرست صہیونی منصوبہ سازوں نے اپنے قلم کی نوک سے لکھا تھا ۔ اِس امن منصوبے کے تحت، مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل یہودی آبادکاروں کی بستیوں کو برقرار رکھ سکتا ہے اور بدلے میں فلسطینیوں کو دو صحرائی علاقے دینے کم کہا گیا ہے ۔ ان میں سے ایک اسرائیل کے جوہری مقام کے قریب ہے ۔
ٹرمپ کے وژن میں شامل فلسطین کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جو کہ صرف اسرائیل کے راستے تنگ راہداریوں کے ذریعے آپس میں منسلک ہیں ۔ جنہیں اسرائیل جب چاہیے اپنی مرضی کے مطابق بند کر سکتا ہے ۔ اِس منصوبے میں فلسطینیوں کے لیے مختص کیے جانے والے مغربی کنارے کے اُس حصے کو جہاں یہودی آبادکاروں کی بستیاںجبئ، مکمل طور پر اسرائیل کے حوالے کدنے کم کہا گیاہے جس سے در حقیقیت اسرائیل کو مغربی کنارے کے پورے علاقے پر اختیار یعنی حاکمیت حاصل ہو جائے گی۔ اسرائیل کو تمام بیرونی سرحدوں پر مکمل اختیار ہو گا اور اسرائیل کو فلسطینی ریاست کی بیرونی سلامتی کا ذمہ سونپا جائے گا ۔ یہی نہیں اسرائیل کو یہ بھی حق ہو گا کہ وہ فلسطین کی ریاست کے اندر اسرائیلی فوجیوں کی بلا روک ٹوک رسائی کے لیے اپنی ضرورت اور سہولت کے مطابق فوجی چوکیاں قائم کر سکے۔ آہستہ آہستہ مغربی کنارے پر تمام فلسطینی علاقوں کو مکمل طور پر غیر فوجی علاقوں میں بدل دیا جائے گا لیکن ان کے ارد گرد یہودی آبادیوں کے مکینوں کو اسلحہ رکھنے اور عسکری تربیت اور عملداری کے لیے بلا روک ٹوک کھلی اجازت ہو گی ۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ اس طرح فلسطینی ہمہ وقت اسرائیلی آہنی شکنجے میں رہیں گے ۔
اِس امن منصوبے میں مجوزہ فلسطین کی خود مختاری کو محدود بلکہ دبائے رکھنے کے لیے مطالبات کی فہرست بہت طویل ہے اور فلسطینیوں کے قائد محمود عباس کے مطابق یہ منصوبہ، مشرقی یرو شلم اور بیت المقدس سمیت موجودہ نیم خود مختار فلسطینی علاقوں سے بھی فلسطینیوں کو محروم رکھتا ہے اور مجرمانہ انداز میں ان کے حقوق کو غصب کرتا ہے ۔ غرضیکہ اس منصوبے کا خلاصہ یہ ہے کہ اسرائیل اور امریکہ دونوں کو ہمیشہ کے لیے فلسطینیوں کے ہاتھ پاؤں باندھ کر انہیں گردن سے دبوچے رکھنے ور جنوبی افریقہ میں ماضی کی اپارتھائیڈ حکومت کی طرح، مجوزہ فلسطینی ریاست کو بھی ہمیشہ کے لئے زنجیروں میں جکڑے رکھنا ہے ۔
فلسطین کے لیے ٹرمپ امن منصوبے کے متعلق سب سے بہتر یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی پیدائش کے وقت ہی مرگیا ہے۔ اِس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو اور اُن کے سیاسی حریف بینی گانز، دونوں نے، صدر ٹرمپ کے ہاتھ کا بوسہ لیتے ہوئے اس منصوبے کو منظور کر لیا ہے ۔ یہ بھی کوئی تعجب کی بات نہیں کہ یورپی یونین بھی محض ہلکے پھلکے الفاظ میں ٹرمپ کے مؤقف پر تنقید کر رہی ہے اور اقوام متحدہ بھی اپنی ہی قراردادوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے فلسطینیوں کےحقوق کے مستقبل کے بارے میں زور دینے سے پیچھے ہٹ رہی ہے ۔ لیکن سب سے زیادہ شرمناک بات وہ خاموشی ہے جو عرب اسلامی ممالک کے سربراہوں، بادشاہوں اور شیوخ نے اختیار کر رکھی ہے ۔ ایران اور ترکی نے کھل کر ٹرمپ منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے اسے ناقابل قبول قرار دیا ہے لیکن عربوں اور خاص کر سعودیوں کی خاموشی بڑی پر معنی ہے اور جو اس وقت یوں دکھائی دیتی ہے کہ جیسے وہ درگور ہوں۔
قاہرہ میں حال ہی منعقد ہوئے اسلامک تنظیم کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں اگرچہ اردن نے دبے لفظوں میں ٹرمپ امن منصوبے پر آواز اٹھائی لیکن بحیثیت مجموعی اس اجلاس کے مندوبین نے خاموشی ہی میں عافیت سمجھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتحاد المسلمین کا دعویٰ اور امت کے درد کا مداوا کرنے کے داعی اور خاص کر خادم الحرمین بیت المقدس کو ہتھیالئے جانے اور فلسطینیوں کو ہمیشہ کے لیے اسرائیلی و امریکی جابرانہ تسلط کے نیچے دبائے رکھنے کے لیے ٹرمپ منصوبے پر آزادانہ و منصفانہ تنقیدی موقف رکھتے بھی ہیں یا نہیں۔ اور اگر رکھتے ہیں تو اس کا اظہار کیوں نہیں کرتے ۔ اُن کی یہ خاموشی ظاہر کرتی ہے کہ وہ ٹرمپ جسےامریکی کانگرس میں جھوٹا، فریبی، اختیارات کو غلط استعمال کرنے اور اپنی ساخت و مفاد کے لیے آمرانہ ہتھکنڈے استعمال کرنے والا صدر قرار دے چکی ہے، ان کے سامنے یہ عرب حکمران بولنے کیا آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہیں رکھتے۔
یہ عرب رہنما، بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی کنونشنوں کی پاسداری اور نفاذ سے کہیں زیادہ اپنے مفادات کے تحفظ اور اپنی اپنی حکومتوں کےتحفظ کے لیے، ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور صدر ٹرمپ کی ہاں میں ہاں ملانے کو زیادہ اہمت و ترجیح دیتے ہیں ۔ بدقسمتی سے عرب سربراہوں کا یہ منافقانہ رویہ اور فلسطینیوں کے ساتھ در پردہ دھوکا دہی، صدر ٹرمپ اور وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کے سامنے سر جھکا دینے کے مترادف ہے۔ جس سے فلسطینیوں کو ہمیشہ کے لیے غلام بنائے رکھنےکے لیےصیہونی منصوبہ کی تکمیل کا آغاز ہوچکا ہے ۔
(بشکریہ: اردو ہمعصر ڈاٹ ڈی کے)
تحریر : نصر ملک